بھارت: لاک ڈاون کی وجہ سے لاکھوں بنکر تباہی کے دہانے پر
21 اپریل 2020دوسروں کا تن ڈھاکنے کے لیے پاور لوم پر کپڑے تیار کرنے والے ملک بھر میں لاکھوں بنکر لاک ڈاون کی وجہ سے اپنی ستر پوشی برقراررکھنے اور سفید پوشی کا بھرم قائم کرنے کی جدوجہد کررہے ہیں۔
تقریباً ایک دہائی قبل حکومت کی طرف سے کرائے گئے سروے کے مطابق بھارت میں پاور لوم بنکروں کی تعداد 43 لاکھ تھی۔ حالانکہ ان کی اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ بتائی جاتی ہے۔ اس پیشے سے وابستہ افراد کی دو قسمیں ہیں ایک وہ جنہوں نے اپنے گھروں میں دو چار پاورلوم کی مشینیں لگارکھی ہے اور دوسرے وہ جو مزدور کے طور پر ان پاورلوم مشینوں پر کام کرتے ہیں۔ ان کے علاوہ کافی بڑی تعداد ایسے لوگوں اور بالخصوص خواتین کی ہے جو کپڑے کی تیاری کے دیگر مراحل میں ہاتھ بٹاتی ہیں۔ لاک ڈاون ہوجانے سے یہ تمام لوگ بے روزگار ہوگئے ہیں اور ان کے سامنے روزی روٹی کا مسئلہ پیدا ہوگیا ہے۔
یوپی بنکر یونین کے سابق سکریٹری جاویداختربھارتی نے ڈی ڈبلیو اردو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ”لاک ڈاون کی وجہ سے آمدنی بالکل بند ہے۔ میٹریل آ نہیں رہا ہے۔ جو بڑے کاروباری ہیں یعنی جن کے پاس بہت سے پاور لوم ہیں ان کا تو کسی نہ کسی طرح سے کام چل جارہا ہے لیکن چھوٹے کاروباری، جو دو دو تین تین پاور لوم لگا کر چلاتے ہیں ان کے سامنے کافی پریشانی ہے۔“
جاوید بھارتی اترپردیش کے مؤ ضلع میں رہتے ہیں جہاں ستر فیصد افرادبنکرکے پیشے سے وابستہ ہیں اور تقریباً 45 ہزار پاور لوم ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مؤ میں صرف دس بارہ افراد ہی بڑے کاروباری ہیں بقیہ لوگوں کے پاس صرف دو تین مشینیں ہیں۔ ”ایسے میں سب سے زیادہ خراب حالت ان چھوٹے کاروباریوں کی ہے۔ غریب بنکروں کے سامنے پہلے سے ہی روزی روٹی کے لالے پڑے تھے لیکن لاک ڈاون نے تو ان کی کمر ہی توڑ دی ہے اور یہ کہنا مشکل ہے کہ پاور لوم کا چکہ رکنے سے مزدوروں کی سانسیں رکنے کا سلسلہ کب شروع ہوجائے۔“
ممتاز احمد، جن کے گھر پر پاور لوم کی دو مشینیں لگی ہیں اور گھرکی خواتین ان پر کام کرتی ہیں، نے بتایا کہ حالانکہ اس کاروبار سے وابستہ بیشتر افراد مسلمان ہیں لیکن ہندو اور دیگر مذاہب کے لوگ بھی بڑی تعداد میں اس کاروبار سے وابستہ ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک ایسا کاروبار ہے جو آلودگی سے پاک ہے۔ انہوں نے بتایا کہ لاک ڈاون کی وجہ سے سب کچھ بند ہوگیا ہے اس لیے نہ تو کپڑا تیار کرنے کے لیے خام مال مل رہا ہے اور نہ ہی تیار مال فروخت ہوپارہا ہے۔
ممتاز احمد بنکروں کے تئیں حکومت کی عدم توجہی سے بھی ناراض ہیں۔ وہ کہتے ہیں ”وزیر اعظم نریندر مودی نے 2015 میں 7 اگست کو نیشنل ہینڈ لوم ڈے منانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس سے بھارتی کلچر اور معیشت میں بنکروں کی خدمات کا اعتراف کیا جائے گا۔ لیکن یہ محض اعلان ہی ثابت ہوا اور بنکروں کی حالت میں کوئی سدھار نہیں ہوسکا ہے۔“
یہ صورت حال صرف اترپردیش تک ہی محدود نہیں ہے۔ ملک کے دیگر حصوں مثلاً مہاراشٹر کے بھیونڈی اورمدھیہ پردیش کے برہان پور کی حالت بھی اس سے زیادہ مختلف نہیں ہے۔
بھیونڈی میں پاورلوم میں کم از کم چھ لاکھ مزدور کام کرتے ہیں۔ ان میں آسام، جھارکھنڈ، بہار، مغربی بنگال، آندھرا پردیش، کرناٹک اور اترپردیش جیسی ریاستوں کے مزدور بھی شامل ہیں۔ بارہ گھنٹے کام کرنے کے بدلے انہیں روزانہ تین سے پانچ سو روپے ملتے ہیں، لیکن اب وہ بھی بند ہوگیا ہے۔
برہان پور میں تقریباً دو لاکھ مزدور پاور لوم میں کام کرتے ہیں۔ 1990 کی دہائی میں برہان پور بھارت میں پاور لوم کے مرکز کے طور پر ابھرا تھا۔ یہاں تیار ہونے والے کپڑے چین سمیت دیگر ملکوں کو برآمد کیے جاتے تھے لیکن 2008 میں اقتدار میں آنے کے بعد بی جے پی حکومت کے ایک فیصلے اور پھرڈیمونیٹائزیشن اور جی ایس ٹی کے نفاذ نے پاور لوم سے وابستہ افراد کی کمر توڑ دی اور 2016 کے بعد ہزاروں پاور لوم بند ہوگئے۔
برہان پور پاور لوم بنکر ایسوسی ایشن کے صدر ریاض احمد انصاری کہتے ہیں ”ہمیں سبسڈی پر دو روپے فی یونٹ کے حساب سے بجلی ملتی تھی لیکن 2008 میں جب شیو راج سنگھ چوہان کی حکومت اقتدار میں آئی تو انہوں نے سبسڈی ختم کرکے بجلی کی شرح 4.61 روپے فی یونٹ کردی۔ اس کے بعد سے ہماری آدھی کمائی تو بجلی کا بل ادا کرنے میں ہی نکل جاتی ہے۔“ ریاض احمد انصاری اس بات سے فکر مند ہیں کہ بجلی کا بل ادا نہ کرنے پراگر بجلی کاٹ دی گئی تو ان کی زندگی بھی تاریک ہوجائے گی۔
اترپردیش بنکر یونین کے سابق سکریٹری جاویدا ختر بھارتی چاہتے ہیں کہ حکومت کم از کم چھ ماہ تک بجلی کا بل معاف کردے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ حکومت کو اس بات کی بھی انکوائری کرانی چاہیے کہ بنکروں کے نام پر جن سہولیات کا اعلان کیا جاتا ہے وہ کن لوگوں کے پاس پہنچ رہی ہیں۔