بھارت میں سینیئر صحافیوں کے گھروں پر چھاپے اور گرفتاریاں
4 اکتوبر 2023بھارت میں منگل کے روز پولیس نے ایک معروف میڈیا ادارے 'نیوز کلک' کی ویب سائٹ سے منسلک متعدد مقامات پر چھاپے کی کارروائی کی اور ادارے کے ایڈیر پربیر پرکائستھ کے ساتھ ہی بعض دیگر افراد کو گرفتار کر لیا۔ مودی حکومت نے ان پر چین سے فنڈز حاصل کرنے کا الزام لگایا ہے۔
منی پور تشدد کی رپورٹ شائع کرنے پر صحافیوں کے خلاف مقدمہ
نیوز کلک اپنے آن لائن پورٹل کو ایک ایسا ''آزاد میڈیا ادارہ بتاتا'' ہے، جو ترقی پسند تحریکوں پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے بھارت سمیت تمام جگہوں کی خبروں کو کور کرنے کے لیے وقف ہے۔'' یہ ادارہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت پر تنقیدی کوریج کے لیے بھی معروف ہے۔
بھارت جمہوریت کی ماں لیکن مودی 'منافقت کے باپ'، کانگریس
دہلی پولیس نے 'نیوز کلک' کے بانی اور ایڈیٹر انچیف پربیر پورکائستھ کو منگل کے روز غیر قانونی سرگرمیوں کی (روک تھام) کے بد نا م زمانہ ایکٹ (یو اے پی اے) کے تحت ایک کیس کے سلسلے میں گرفتار کیا تھا۔ عدالت نے بدھ کی صبح انہیں سات دن کے لیے پولیس کی حراست میں بھیج دیا۔
بھارت میں صحافت کا گلا گھونٹنےکے لیے انسداد دہشت گردی کے قوانین کا استعمال؟
ادارے کے ہیومن ریسورس کے سربراہ امیت چکرورتی کو بھی انہیں کے ساتھ گرفتار کیا گیا تھا اور انہیں بھی خصوصی عدالت نے پولیس کی حراست میں بھیج دیا ہے۔
بھارتی صحافی صدیق کپّن کو ضمانت مل گئی، جلد رہائی کی امید
دہلی میں پولیس چھاپوں کی نگرانی کرنے والے وزارت داخلہ کے ایک اہلکار نے کہا، ''ایک خصوصی تفتیشی ٹیم نے ان تمام افراد کی شناخت کے لیے ایک تلاشی آپریشن شروع کیا، جو ممکنہ طور پر غیر ملکی پروپیگنڈہ پھیلانے کے ایجنڈے کے ساتھ میڈیا گروپ چلانے کے لیے، بیرون ملک سے فنڈ حاصل کر رہے تھے۔''
دہلی پولیس نے نیوز کلک کے مرکزی دفتر اور نیوز پورٹل سے منسلک تقریباً 40 صحافیوں اور کارکنوں کی رہائش گاہوں پر دن بھر چھاپے کی کارروائی کی اور الزام لگایا کہ اس ادارے نے چین نواز پروپیگنڈے کے لیے بیرون ملک سے رقم وصول کی۔ چھاپوں کے بعد پولیس نے دہلی میں نیوز کلک کے دفتر کو بھی سیل کر دیا۔
پچھتر برس بعد بھارتی جمہوریت دباؤ میں
اس سلسلے میں تقریباً 50 صحافیوں سے پوچھ گچھ کی گئی اور ان کے لیپ ٹاپ، موبائل فون سمیت دیگر ڈیجیٹل ڈیوائسز اور دستاویزات کو جانچ کے لیے ضبط کر لیا گیا۔
صحافی زبیر کی گرفتاری پر جرمنی کے تبصرے سے بھارت ناراض
سینیئر صحافی ارملیش، آنندیو چکرورتی، ابھیسار شرما، پرانجوئے گوہا ٹھاکرتا کے ساتھ ساتھ تاریخ دان سہیل ہاشمی اور طنز نگار سنجے راجورا اور سنٹر فار ٹیکنالوجی اینڈ ڈیولپمنٹ کے ڈی راگھونندن جیسی معروف شخصیات سے چھ گھنٹے سے بھی زیادہ وقت سے پوچھ گچھ کی اور پھر انہیں بعد میں جانے کی اجازت دے دی گئی۔
دیگر دو صحافیوں نے بتایا کہ پولیس نے ان کے گھروں پر چھاپوں کے دوران ان کے آلات ضبط کر لیے۔ صحافی ابھیسار شرما نے سوشل میڈیا پر لکھا، ''دہلی پولیس میرے گھر پر آئی۔ میرا لیپ ٹاپ اور فون چھین لیا۔''
حکومتی اقدام پر تشویش
پریس کلب آف انڈیا کا کہنا ہے کہ وہ ''نیوز کلک سے وابستہ صحافیوں اور مصنفین کے گھروں پر مارے گئے متعدد چھاپوں کے بارے میں بہت فکر مند ہے۔'' اس نے مزید کہا کہ وہ ''صحافیوں کے ساتھ یکجہتی کے ساتھ کھڑا ہے اور حکومت سے تفصیلات کے ساتھ آنے کا مطالبہ کرتا ہے۔''
ادارے نے بدھ کے روز صحافیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے ایک میٹنگ طلب کی ہے۔ ادارے نے حکومتی اقدام کے خلاف احتجاجی مارچ کی کال دی تھی تاہم پولیس نے اس کی بھی اجازت نہیں دی۔
نیوز کلک کو کن الزامات کے تحت نشانہ بنایا گیا؟
حکومت کے ایک اہلکار کا کہنا ہے کہ یہ چھاپے انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ کی جانب سے تفتیش کے ایک حصے کے طور پر مارے گئے۔
یہ تفتیش اگست میں نیویارک ٹائمز کی اس رپورٹ کے بعد شروع کی گئی تھی، جس میں کہا گیا تھا کہ نیوز کلک نے بھارتی نژاد امریکی ارب پتی نیویل رائے سنگھم سے فنڈز حاصل کیے ہیں، جن کے بیجنگ کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں۔ واضح رہے کہ سن 2020 میں سرحدی جھڑپوں کے بعد سے بھارت اور چین کے درمیان تعلقات کشیدہ ہیں۔
تاہم نیوز کلک کے بانی پربیر پورکائستھ نے اس وقت ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ عدالت میں اس کا جواب دیں گے۔
بھارت میں مودی حکومت نے گزشتہ چند برسوں کے دوران متعدد میڈیا اداروں اور صحافیوں کے خلاف اس طرح کی کارروائیاں کی ہیں، جس میں معروف میڈیا ادارہ این ڈی ٹی وی بھی شامل ہے۔ البتہ اب این ڈی ٹی وی کو مودی کے قریبی کاروباری شخصیت اڈانی نے خرید لیا ہے۔
رواں برس فروری میں بھارتی حکام نے ٹیکس چوری کے الزام میں نئی دہلی اور ممبئی میں بی بی سی کے دفاتر میں بھی چھاپے کی کارروائی کی تھی۔
آزادی صحافت کی درجہ بندی میں بھارت مسلسل گرتا جا رہا ہے اور رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز نے سن 2023 میں پریس کی آزادی سے متعلق، جو درجہ بندی کی ہے، اس میں بھارت نے بہت خراب اسکور کیا ہے۔ وہ اس فہرست میں اب 161 ویں مقام پر پہنچ گیا ہے۔
ادارے نے ملک کی میڈیا کی صورتحال کو پہلے ایک بڑا ''مسئلہ'' بتایا تھا، جسے اب ''بہت ہی خراب'' صورت حال سے تعبیر کیا گیا ہے۔