بھارت میں پابندی کے بعد چینی ’ٹِک ٹوک‘ ایپ سٹورز سے غائب
17 اپریل 2019بھارتی دارالحکومت نئی دہلی سے بدھ سترہ اپریل کو موصولہ نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق اس بہت مقبول چینی ایپ کو تیار کرنے والے ادارے بائٹ ڈانس ٹیکنالوجی کے لیے یہ پابندی بہت بڑا دھچکا ہے کیونکہ اس ادارے کے لیے بھارت، جو دنیا میں آبادی کے لحاظ سے دوسرا سب سے بڑا ملک ہے، ایک انتہائی اہم منڈی ہے، جس میں وہ اپنے لیے زیادہ سے زیادہ رسائی کا خواہش مند تھا۔
ٹِک ٹوک (TikTok) ایک ایسی اسمارٹ فون ویڈیو ایپلیکیشن ہے، جس کے ذریعے عام صارفین خود چھوٹی چھوٹی اور اسپیشل ایفیکٹس والی ویڈیوز بنا کر ایک دوسرے کے ساتھ شیئر کر سکتے ہیں۔ یہ ایپ بھارت میں انتہائی مقبول ہے لیکن بہت سے بھارتی سیاستدانوں کے نزدیک اس ایپ کے مندرجات ’نامناسب‘ ہیں اور ان کی اجازت نہیں دی جانا چاہیے۔
بھارت میں اس چینی ویڈیو ایپ کے خلاف جنوبی ریاست تامل ناڈو کی ایک عدالت نے اپنے ایک فیصلے میں تین اپریل کو نئی دہلی میں ملکی حکومت کو یہ حکم دیا تھا کہ وہ ’ٹِک ٹوک‘ پر پورے ملک میں پابندی لگا دے۔
ساتھ ہی عدالت نے اپنے اس فیصلے کی ایک وجہ یہ بھی بتائی تھی کہ اس ایپ سے ویڈیو فارمیٹ میں فحاشی کی حوصلہ افزائی ہوتی تھی اور اس کی مدد سے بچوں کا جنسی استحصال اور ان پر جنسی حملے کرنے والے عناصر اس ایپ کے نابالغ صارفین کو نشانہ بھی بنا سکتے تھے۔
دوسری طرف کئی ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ بھارت میں، جہاں ان دنوں ملکی پارلیمان کے انتخابات کا کئی ہفتوں پر محیط عمل جاری ہے، یہ ایپ بہت سے سیاستدانوں پر صارفین کی طرف سے تنقید کا ذریعہ بھی تھی اور سیاستدانوں کی طرف سے ’ٹِک ٹوک‘ کی مخالفت کی ایک وجہ ان کی اپنے لیے شرمندگی سے بچنے کی کوشش بھی تھی۔
بھارت میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ملکی وزارت کے ایک اہلکار کے مطابق تامل ناڈو کی ریاستی عدالت کے فیصلے کے بعد وفاقی حکومت نے ایپل اور گوگل کے ایپ سٹورز کو ایک خط لکھا تھا، جس میں درخواست کی گئی تھی کہ اس عدالتی حکم پر عمل کیا جائے اور بھارتی صارفین کو یہ ایپ ڈاؤن لوڈ کے طور پر مہیا نہ کی جائے۔
اس بارے میں گوگل کے علاوہ ایپل کمپنی نے بھی تصدیق کر دی ہے کہ ’ٹِک ٹوک‘ اب ان اداروں کے آن لائن ایپ سٹورز پر بھارتی صارفین کے لیے ڈاؤن لوڈ کے طور پر دستیاب نہیں ہے۔ بھارت میں ’ٹِک ٹوک‘ کے ایک نمائندے نے اس بارے میں کوئی بھی تبصرہ کرنے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ یہ معاملہ ابھی عدالت میں ہے۔
م م / ع ح / روئٹرز