بھارت نواز کشمیری رہنماوں پر مودی حکومت کا نیا حملہ
17 نومبر 2020ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے سابق صدر اور مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ نے آج منگل کے روز جموں و کشمیر کے بھارت نواز سیاسی رہنماوں پر سخت حملہ کرتے ہوئے ان پر آئین کی دفعہ 370 کو ختم کرنے کے معاملے میں 'غیر ملکی طاقتوں کی مداخلت‘ کرنے میں مدد کرنے اور مرکز کے زیر انتظام علاقے میں دہشت اور افراتفری کا ماحول دوبارہ واپس لانے کی کوشش کرنے سمیت متعدد الزامات عائد کیے۔
امیت شاہ نے ایک سے زائد ٹوئٹ کرتے ہوئے 'گپکاراعلا میہ‘ پر دستخط کرنے کے لیے جموں و کشمیر کی علاقائی سیاسی جماعتوں کے ساتھ ہی کانگریس پارٹی کو بھی آڑے ہاتھوں لیا اور کہا کہ کانگریس کی صدر سونیا گاندھی اور پارٹی کے رہنما راہول گاندھی کو بھی گپکار اعلامیہ کے سلسلے میں اپنا موقف واضح کرنا چاہیے۔
گپکار گینگ
بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ نے ایک ٹویٹ میں کہا، ”گپکار گینگ عالمی ہوتاجا رہا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ غیر ملکی طاقتیں جموں و کشمیر میں مداخلت کریں۔ گپکار گینگ نے بھارتی قومی پرچم کی توہین کی ہے۔کیا سونیا جی اور راہول جی گپکار گینگ کے ان اقدامات کی حمایت کرتے ہیں؟ انہیں ملک کے لوگوں کے سامنے اپنا موقف واضح کرنا چاہیے۔"
امیت شاہ نے ایک دیگر ٹوئٹ میں کہا، ”کانگریس اور گپکار گینگ کشمیر کو ایک بار پھر دہشت اور افراتفری والے دور میں لے جانا چاہتے ہیں۔وہ دلتوں، خواتین اور قبائلیوں کے حقوق کو چھیننا چاہتے ہیں جو ہم نے آرٹیکل 370 کو ہٹاکر یقینی بنائے ہیں۔ اسی لیے لوگ انہیں ہر جگہ مستردکر رہے ہیں۔"
بھارتی وزیر داخلہ کا کہنا تھا،”جموں و کشمیر بھارت کا لازمی حصہ رہا ہے، اور ہمیشہ رہے گا۔ بھارت کے عوام قومی مفادات کے خلاف کسی بھی ناپاک اتحاد کو اب اور برداشت نہیں کریں گے۔یا تو گپکار گینگ قومی موڈ کے ساتھ چلے ورنہ لوگ اسے ڈبو دیں گے۔"
کشمیری رہنماوں کا سخت ردعمل
امیت شاہ سے قبل گزشتہ روز بھارتی وزیر قانون روی شنکر پرساد نے بھی اسی طرح کا بیان دیا تھا۔روی شنکر پرساد نے الزام لگایا تھا کہ کشمیری رہنما اس لیے مخالفت کررہے ہیں کیوں کہ وہ جموں و کشمیر میں بدعنوانی کی روک تھام کا قانون سمیت دیگر قوانین کو نافذ ہونے دینا نہیں چاہتے تاکہ ان کی بدعنوانی جاری رہے۔ انہوں نے فاروق عبداللہ اور محبوبہ مفتی پر نشانہ لگاتے ہوئے کہا کہ ایک سابق وزیر اعلی کہتا ہے کہ وہ دفعہ 370 کو بحال کرنے کے لیے چین کی بھی مدد لیں گے جبکہ دوسری سابق وزیر اعلی کہتی ہے کہ وہ قومی پرچم لہرانے نہیں دیں گی۔
کشمیر ی رہنماوں نے امیت شاہ اور روی شنکر کے علاوہ بی جے پی کے دیگر رہنماوں کے اس طرح کے بیانات کی سخت نکتہ چینی کی ہے۔
نیشنل کانفرنس کے نائب صدر اور سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے کہا کہ بھارتی وزیر داخلہ عوامی اتحاد کے انتخابات لڑنے کے فیصلے سے کافی مایوس ہوئے ہیں اور ہم ان کی مایوسی کو سمجھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جموں و کشمیر واحد ایسی جگہ ہے جہاں لیڈران کو انتخابات میں حصہ لینے اور جمہوری عمل کی حمایت کرنے پر قید میں ڈالنے اور ملک دشمن ہونے کا نام دیا جاتا ہے۔ سچ یہ ہے کہ جو کوئی بھی بی جے پی کے نظریات کی مخالفت کرتا ہے اس پر بدعنوانی اور ملک دشمن ہونے کا لیبل چسپاں کردیا جاتا ہے۔
عمر عبداللہ کا مزید کہنا تھا، ”امت شاہ جی ہم گینگ نہیں ہیں۔ ہمارا ایک جائز سیاسی اتحاد ہے۔ ہم انتخابات لڑتن آئے ہیں اور لڑتے رہیں گے۔ اس سے آپ کو مایوسی ہوتی ہے۔"
پی ڈی پی صدر اور سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے بھی کئی ٹوئٹ کرکے امیت شاہ کو جواب دیے۔ انہوں نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا ”اتحاد بنا کر انتخابات میں حصہ لینا بھی اب ملک دشمنی قرار دیا جاتا ہے۔ بی جے پی خود حصول اقتدار کے لئے کئی اتحاد بنا سکتی ہے لیکن ہم لوگ الیکشن کے لیے متحدہ محاذ بنا کر قومی مفاد کو نقصان پہنچا رہے ہیں!۔"
محبوبہ مفتی نے ایک دیگر ٹویٹ میں کہا کہ پہلے بی جے پی کا بیانیہ تھا کہ ”ٹکڑے ٹکڑے گینگ" ملک کی سالمیت کے لیے خطرہ ہے لیکن اب وہ ”گپکار گینگ"کو ملک دشمن ہونے کے طور پر پیش کر رہی ہے۔
بی جے پی عوام سے معافی مانگے
اس تازہ ترین پیش رفت کے حوالے سے بائیں بازو کی جماعت سی پی آئی کے قومی سکریٹری اتول کمار انجان نے ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے کہابی جے پی کے ذریعہ جموں و کشمیر کے سیاسی حالات پر اٹھائے جانے والے سوالوں پر خود بی جے پی کو ملک کو جواب دینے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے سوال کیا ”بی جے پی نے محبوبہ مفتی کی پی ڈی پی کے ساتھ حکومت کیوں بنائی تھی؟ جب کہ اسے پی ڈی پی کی پالیسیوں کا اچھی طرح سے علم ہے۔
اتول کمار انجان نے کہا کہ آج بی جے پی، پی ڈی پی پر سوالات اٹھارہی ہے لیکن سب سے پہلے اسے ملک سے معافی مانگنی چاہیے کیوں کہ اس نے محبوبہ مفتی سے مل کر متحدہ حکومت بنائی تھی۔
کیا ہے گپکار اعلامیہ؟
بھارت کی مودی حکومت کی جانب سے 5 اگست 2019 کو جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنے سے ایک روز قبل بی جے پی کو چھوڑ کر جموں و کشمیر کی دیگر تمام بھارت نواز سیاسی جماعتوں کی سابق وزیر اعلی فاروق عبداللہ کی گپکار میں واقع رہائش گاہ پر میٹنگ ہوئی تھی جس میں ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کرکے کہا گیا تھا کہ اگر نئی دہلی حکومت دفعہ 370 اور دفعہ 35اے کو ختم کرنے یا ریاست کو تقسیم کرنے کی کوشش کرتی ہے تو اس کے خلاف متحد ہوکر جدوجہد کی جائے گی۔
دفعہ 370 کے خاتمے کے اعلان کے ساتھ ہی تقریباً تمام اہم کشمیری رہنماوں کو جیلوں میں ڈال دیا گیا تھا۔ رہائی کے بعد ان کشمیری لیڈروں نے اپنی پہلی مشترکہ میٹنگ میں گپکار اعلامیہ کو 'پیپلز الائنس فار گپکار ڈکلیریشن'کا نام دیا اور اس کے تحت اپنے مطالبات کے لیے متحدہ طور پر جدوجہد جاری رکھنے کا اعلان کیا۔ کانگریس پارٹی پہلے اس میں شامل نہیں تھی تاہم بعد میں وہ بھی اس میں شامل ہوگئی ہے۔