بھارت نے اسرائیل کے ساتھ دفاعی سودا منسوخ کر دیا
20 نومبر 2017نریندر مودی حکومت نے اسرائیل سے اینٹی ٹینک گائیڈڈ میزائل اسپائک کی خریداری کا یہ معاہدہ منسوخ کرنے کا اعلان ایسے وقت پر کیا ہے، جب بھارتی فوج کو میزائلوں کی شدید قلت کا سامنا ہے۔ ماہرین اس معاہدے کی منسوخی کو بھارتی افواج کو جدید بنانے کی کوششوں کے لیے بڑا دھچکا قرار دے رہے ہیں۔
خیال رہے کہ اسپائک تھرڈ جینریشن انتہائی خطرناک میزائل ہے۔ یہ ڈھائی کلومیٹر تک دشمن کو نشانہ بنا سکتا ہے۔ یہ دن کی روشنی کے علاوہ رات کی تاریکی میں بھی اپنے ہدف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
بھارتی آرمی ہیڈ کوارٹر نے وزارت دفاع کو خط لکھ کر زور دیا تھا کہ ایسے جدید ترین ہتھیار کنٹرول لائن پر تعینات جوانوں کا حوصلہ اور طاقت بڑھانے میں کافی موثر ثابت ہوں گے۔ دونوں ملکوں کے درمیان گزشتہ برس اس میزائل کے حوالے سے معاہدہ کے بعد ہی اسرائیل کے رافیل اور بھارت کے کلیانی گروپ کے درمیان باہمی شراکت سے بھارت میں ہی میزائل تیار کرنے پر اتفاق ہوا تھا اور اس کے لیے جنوبی شہر حیدرآباد کے نزدیک ایک جدید ترین کارخانہ بھی تعمیر کیا جارہا تھا۔
یہاں ذرائع کا کہنا ہے کہ چونکہ وزیر اعظم نریندر مودی نے میک ان انڈیا کے نام سے ایک پرعزم منصوبہ شروع کر رکھا ہے اور بھارت کو ہتھیاروں کی مینوفیکچرنگ کا مرکز بنانا چاہتے ہیں اس لیے ملک میں ہی ہتھیار تیار کرنے کے لیے اسرائیل کے ساتھ یہ سودا منسوخ کیا گیا ہے۔ اب میزائل کی تیاری کی ذمہ دار دفاعی تحقیقی ادارے ڈیفنس ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن (ڈی آر ڈی او) کو دی گئی ہے۔ سودا منسوخ کرنے کی ایک دوسری وجہ یہ بھی بتائی جا رہی ہے کہ اس سے بھارت میں ہتھیاروں کے نظام کی تیارکرنے کے منصوبے پر منفی اثر پڑ سکتا تھا۔
مودی اسرائیل میں: ننگے پاؤں چہل قدمی اور اربوں کے سودے
کیا بھارت اسرائیل دفاعی تعاون پاکستان کے لیے خطرہ ہے؟
اسرائیل کی مدد، بھارت کا نئے میزائل سسٹم کا کامیاب تجربہ
بھارتی وزارت دفاع کے ذرائع کے مطابق ڈی آر ڈی او کے پاس میزائل بنانے کی صلاحیت ہے۔ وہ اس سے پہلے ناگ اور انامیکا نامی اینٹی ٹینک گائیڈڈ میزائل بناچکا ہے۔ ڈی آر ڈی او کو یقین ہے کہ وہ اگلے تین سے چار برسوں میں کسی بیرونی مدد کے بغیر بھی تیسرے جنریشن کا مین پورٹیبل اینٹی ٹینک گائیڈڈ میزائل(ایم پی اے ٹی جی ایم) بنانے کا اہل ہوجائے گا۔
اس وقت بھارت کے پاس صرف سیکنڈ جینریشن کے اینٹی ٹینک گائیڈڈ میزائل ہیں، جو رات کی تاریکی میں اپنے ہدف کو نشانہ نہیں بناپاتے۔ اس کے علاوہ بھارتی فوج کو تقریباً اڑسٹھ ہزار میزائلوں کی کمی کا بھی سامنا ہے۔
خیال رہے کہ بھارت اور اسرائیل کے درمیان سن 1992میں مکمل سفارتی تعلقات قائم ہونے کے بعد سے دونوں ملکوں میں دفاعی تعلقات میں کافی اضافہ ہوا ہے۔ اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی رپورٹ کے مطابق سن 2012 اور 2016 کے درمیان اسرائیل نے سب سے زیادہ یعنی اکتالیس فیصد ہتھیار بھارت کو فروخت کیے۔ امریکا اور روس کے بعد بھارت سب سے زیادہ ہتھیار اسرائیل ہی سے خریدتا ہے۔
دونوں ملکوں کے درمیان ماضی میں بھی دفاعی تعلقات رہے ہیں۔ سن 1962میں بھارت چین جنگ کے دوران اسرائیل نے بھارت کو فوجی مدد دی تھی۔ سن 1965 اور 1971 میں پاکستان کے ساتھ جنگ کے دوران بھی اسرائیل نے بھارت کو تعاون فراہم کیا تھا۔دوسری طرف سن 1967 میں چھ روزہ جنگ کے دوران بھارت نے اسرائیل کو فرانسیسی ساخت کے طیاروں اور ٹینکوں کے پرزے فراہم کیے تھے۔ سن 1999میں کارگل جنگ کے دوران جب بھارت کے پاس توپ کے گولوں کی کمی ہوگئی تھی تو اسرائیل نے ہی فوری مدد دی تھی۔
دونوں ملکوں کے درمیان دیگر شعبوں میں بھی تعلقات بڑی تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ اس سال وزیر اعظم نریندر مودی نے اسرائیل کا دورہ کیا تھا جو کسی بھارتی وزیر اعظم کا اسرائیل کا پہلا دورہ تھا جب کہ اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو چودہ جنوری کو بھارت کے تین روزہ حکومتی دورے پر آرہے ہیں۔ ہتھیارو ں کو چھوڑ کر دیگر شعبوں میں بھارت اور اسرائیل کے درمیان سالانہ پانچ ار ب ڈالر کی تجارت ہوتی ہے۔