بھارت: پیدائش کے بعد چوبیس گھنٹوں کے اندر اندر سالانہ تین لاکھ بچے ہلاک
9 مئی 2013بھارت میں پیدائش کے بعد 24 گھنٹوں کے اندر اندر دم توڑ دینے والے بچوں کی سالانہ تعداد تین لاکھ سے زائد بتائی جاتی ہے۔ اس بارے میں منظر عام پر آنے والی ایک تازہ ترین رپورٹ سے انکشاف ہوا ہے کہ یہ بچے کسی نہ کسی انفیکشن یا ایسی وجوہات کی بنا پر ہلاک ہو جاتے ہیں جن سے بچاؤ ممکن ہوتا ہے تاہم سیاسی عزائم اور سرکاری فنڈز کی کمی ان نومولود بچوں کی موت کا سبب بن جاتی ہے۔
Save The Children نامی ایک بین الاقوامی تنظیم نے حال ہی میں ماؤں کے عالمی دن کے موقع پر ایک رپورٹ شائع کی جس میں کہا گیا کہ دنیا بھر میں نومولود بچوں کی کُل اموات کا 23 فیصد بھارت میں دیکھنے میں آتا ہے۔ اس رپورٹ میں 186 ممالک کے اعداد و شمار شامل کیے گئے ہیں۔ جنوبی ایشیا میں، جہاں عالمی آبادی کا 24 فیصد حصہ رہتا ہے، پیدائش کے بعد 24 گھنٹوں کے اندر اندر موت کے منہ میں چلے جانے والے بچوں کی شرح ایسی اموات کی عالمی تعداد کا 40 فیصد بنتی ہے۔ اس ضمن میں بنگلہ دیش اور پاکستان کے نام بھی فہرست میں کافی اوپر ہیں۔ بنگلہ دیش میں پیدائش کے بعد ایک روز کے اندر اندر ہلاک ہو جانے والے بچوں کی سالانہ تعداد 28 ہزار جبکہ پاکستان میں 60 ہزار بتائی گئی ہے۔ ماہرین اس کی وجہ حاملہ اور زچہ ماؤں میں غذائیت کی کمی بتاتے ہیں۔
’سیو دی چلڈرن‘ نامی تنظیم کے علاقائی ڈائریکٹر مائک نووَیل کا کہنا ہے کہ جنوبی ایشیائی ممالک پاکستان، بھارت اور چین میں اس سلسلے میں کچھ بہتری آئی ہے۔ لیکن پھر بھی وہاں روزانہ ایک ہزار نومولود بچے دنیا میں آنے کے بعد 24 گھنٹوں کے اندر اندر قابل امتناع وجوہات کے باعث دم توڑ دیتے ہیں۔
اس تنظیم نے ایسے نومولود بچوں کی ہلاکتوں کی تین اہم وجوہات بتائی ہیں، زچگی کے دوران طبی پیچیدگیاں، قبل از وقت پیدائش اور مختلف طرح کی انفیکشنز۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ نہایت کم لاگت سے زندگی بچانے کے ذرائع تک رسائی ان نومولود بچوں میں شرحء اموات میں 75 فیصد تک کمی کا باعث بن سکتی ہے۔
بچوں کے تحفظ کی اس انٹرنیشنل تنظیم نے کہا ہے کہ گزشتہ ایک دہائی کے دوران بھارت میں تیز رفتار معاشی ترقی ہوئی ہے اور حکومت کی طرف سے غریب عوام اور دیہی علاقوں کی ترقی کے لیے متعدد پروگرامو ں کو آگے بڑھایا گیا ہے تاہم ایسی امداد اور تعمیر و ترقی کے ثمرات سب سے زیادہ مستحق افراد تک نہیں پہنچتے۔
بھارت میں ماں بننے والی خواتین کی نصف سے زائد تعداد کسی طبی دیکھ بھال یا زچگی کے دوران مدد کرنے والی تربیت یافتہ خواتین کی طرف سے کسی مدد کے بغیر ہی بچوں کو جنم دیتی ہے۔ اس وجہ سے بچے کی پیدائش کے دوران ایسی پیچیدگیاں اور انفیکشنز جنم لیتے ہیں جو فوری طور پر ایسے بچوں کے لیے جان لیوا ثابت ہوتے ہیں۔ بھارت کے دور افتادہ دیہات میں ڈاکٹروں اور ہسپتالوں کی شدید قلت کے سبب غریب لوگ ناتجربہ کار اور غیر تربیت یافتہ طبی عملے پر ہی انحصار کرتے ہیں۔ بڑے شہروں میں بھی اکثر خواتین اپنے بچوں کو گھروں پر ہی جنم دیتی ہیں۔
ملکی دارالحکومت میں صحت عامہ کا نظام دیگر علاقوں سے بہت بہتر ہے۔ نئی دہلی کی ایک ماہر امراض نسواں شرمیلا لال کہتی ہیں، ’ہسپتال گھر سے بالکل نزدیک ہی کیوں نہ ہوں، زیادہ تر خواتین حفظان صحت کی انتہائی غیر محفوظ اور بری صورتحال کے باوجود اپنے بچوں کو گھروں پر ہی جنم دیتی ہیں۔ اس کی وجہ خواتین میں شعور کی کمی ہے‘۔
ڈاکٹر شرمیلا لال کا کہنا ہے کہ حکومت کو ایسے پیرا میڈیکل عملے کی تربیت کے لیے سرمایہ کاری کرنی چاہیے جو ڈاکٹروں پر بوجھ کم کرتے ہوئے حاملہ خواتین کو زندگی بچانے والے بنیادی اور سادہ اصولوں سے آگاہ کر سکے۔ ’’نارمل ڈاکٹروں پر کام کا بوجھ اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ وہ حاملہ خواتین میں ماں اور بچے دونوں کے لیے حفظان صحت کے بنیادی اصولوں سے متعلق شعور بیدار کرنے کے لیے کوئی مشورہ نہیں دیتے۔‘‘
’سیو دی چلڈرن‘ کی اس تازہ ترین رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر بھارت میں معاشرتی طبقاتی فرق ختم ہو جائے اور ہر نومولود بچے کو وہی سہولیات میسر ہوں جو صرف امیر گھرانوں کے بچوں کو میسر آتی ہیں، تو بھی ہر سال مزید تین لاکھ 60 ہزار بچوں کو لقمہء اجل بننے سے بچایا جا سکتا ہے۔
km / mm (AFP)