بھارت کی امریکا کے خلاف جوابی کارروائی
16 جون 2019جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق نئی دہلی میں بھارتی وزارت خزانہ کی طرف سے ہفتہ 15 جون کی شب امریکی مصنوعات پر اضافی محصولات عائد کرنے کا نوٹیفیکشن جاری کیا گیا اور آج اتوار 16 جون سے اس پر عملدرآمد شروع ہو گیا ہے۔
بھارت کی طرف سے عائد کردہ ان محصولات کی زد میں جو 28 امریکی مصنوعات آئی ہیں ان میں بادام اور دیگر نٹس، دالیں اور سیب بھی شامل ہیں اور یوں ان مصنوعات کی قیمتیں بھارتی مارکیٹ میں بڑھ جائیں گی۔
بھارت کے 'سینٹرل بورڈ آف اِن ڈائریکٹ ٹیکسس اینڈ کسٹمز‘ (CBIC) نے اپنے ایک سابق آڈر میں ترمیم کرتے ہوئے لکھا کہ یہ ''جوابی محصولات امریکا میں پیدا ہونے والی یا وہاں سے درآمد کی جانے والی 28 اشیاء پر لاگو کیے گئے ہیں‘‘ جبکہ دیگر ممالک سے آنے والی انہی اشیاء پر اضافی محصولات کا اطلاق نہیں ہو گا۔
بھارت نے پہلی مرتبہ اضافی محصولات کا اعلان جون 2018ء میں اُس وقت کیا تھا جب امریکا نے اسٹیل اور ایلمونیم جیسی بھارتی مصنوعات پر محصولات میں اضافہ کر دیا تھا۔ تاہم اس کے اطلاق میں بار بار تاخیر کی جاتی رہی اور آخری ڈیڈ لائن آج اتوار 16 جون کو ختم ہو رہی تھی۔
بھارت اور امریکا قریبی تجارتی تعلقات سے استفادہ حاصل کرتے رہے ہیں حالانکہ امریکا متعدد مرتبہ بھارت کو زائد محصولات کا حامل ملک قرار دیتا رہا ہے جس کی وجہ سے امریکی مصنوعات کی بھارت کی انتہائی بڑی مارکیٹ تک رسائی محدود تھی۔
یکم جون کو امریکا نے بھارت کو حاصل خصوصی مراعاتی تجارتی حیثیت کا خاتمہ کر دیا تھا۔ بھارت نے امریکا کی طرف سے 'جنرلائزڈ سسٹم آف پریفرینس‘ (GPS) سے بھارت کو خارج کرنے کے عمل کو 'بدقسمتی‘ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ بھارت ایسے معاملات میں ہمیشہ اپنے مفادات کو مقدم رکھے گا۔
امریکا کی طرف سے جی پی ایس پروگرام 1976ء میں شروع کیا گیا تھا جس کا مقصد ترقی پذیر ممالک کی معاشی نمو میں مدد دینا تھا۔ جن ممالک کو یہ خصوصی تجارتی حیثیت دی جاتی ہے وہ اپنی دو ہزار کے قریب تجارتی اشیاء امریکا میں بغیر کسی ڈیوٹی کے درآمد کر سکتے ہیں۔ بھارت اس سہولت سے سب سے زیادہ فائدہ اٹھانے والا ملک رہا ہے۔
ا ب ا / ع ب (ڈی پی اے)