بھارت کی نئی پاکستانی حکومت سے توقعات کیا ہیں؟
22 فروری 2024پاکستان ایک متنازع قومی انتخابات کے نتائج، جس میں کسی جماعت کو واضح اکثریت نہیں ملی، کے بعد اب ایک مخلوط حکومت کے قیام کی سمت آگے بڑھ رہا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ نواز (پی ایم ایل این)، جسے ملک کی طاقت ور فوج کی حمایت حاصل ہے اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے درمیان اقتدار کی تقسیم کا معاہدہ ہو گیا ہے۔ اس اتحاد میں کئی چھوٹی جماعتیں بھی شامل ہیں۔
دونوں بڑی جماعتوں نے شہباز شریف کو وزارت عظمیٰ اور سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے شوہر آصف علی زرداری کو صدر کا امیدوار نامزد کرنے پر اتفاق کر لیا ہے۔
نئی حکومت کا انحصار فوج کی حمایت پر ہو گا
ذرائع نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ نئی دہلی، جو اپنے پڑوسی اور حریف ملک کی سیاسی صورت حال پر گہری نگاہ رکھے ہوئے ہے، کثیر الجماعتی اتحاد کو ''غیر مستحکم اور کمزور‘‘ کے طور پر دیکھتا ہے۔
اس کی ایک وجہ آٹھ فروری کو ہوئے قومی انتخابات میں دھاندلی کے الزامات بھی ہیں۔ نئی حکومت کو جیل میں بند سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی پارٹی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے حامیوں کے شدید دباؤ کا بھی سامنا کرنا پڑے گا، جس کے پاس پارلیمنٹ میں اس کے حمایت یافتہ آزاد قانون سازوں کا سب سے بڑا گروپ ہے۔
پاکستان میں 'الیکشن نہیں اب سلیکشن ہوتا' ہے، بھارتی تجزیہ کار
انتخابی مہم کے دوران فوج کی جانب سے عمران خان کے حریفوں کی مبینہ پشت پناہی کے الزامات کے مدنظر بھارت میں کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ انتخابات کے نتائج نے پاکستانی فوج کی قانونی حیثیت اور اس کے سربراہ جنرل عاصم منیر کی اتھارٹی کو نقصان پہنچایا ہے۔
بہرحال فوج دوست جماعتیں پی ٹی آئی کو حکومت سے باہر رکھنے میں کامیاب رہی ہیں۔
ایک سینیئر بھارتی سکیورٹی اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''دراصل ایسا لگتا ہے، جیسے پاکستانی فوج کو وہ مل گیا، جو وہ چاہتی تھی، یعنی سیاسی جماعتوں کی قیادت میں ایک کمزور اور نازک مخلوط حکومت۔‘‘
نواز شریف پڑوسیوں کے ساتھ بہتر تعلقات کے خواہش مند
بھارت میں سابق سفارت کاروں اور پالیسی ماہرین کا کہنا ہے کہ نئی مخلوط حکومت کو اپنے آغاز میں ہی پاکستان کے معاشی بحران اور ملک میں سکیورٹی کے داخلی مسائل پر توجہ مرکوز کرنا ہو گی۔
امریکہ میں بھارت کی سابق سفیر میرا شنکر نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ''وہاں جمہوریت ابھی کمزور ہے اور مسلح افواج اب بھی ضرورت سے زیادہ بڑا کردار ادا کر رہی ہیں۔ پاکستان کو متعدد بحرانوں کا سامنا ہے اور نئی حکومت کو ترجیحی طور پر ان سے نمٹنا ہوگا۔‘‘
تاہم یہ حقیقت کہ شہباز شریف مسند اقتدار تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے، امید کی ایک کرن ہے۔
پاکستانی انتخابات کا پھیکا پن اور بھارت
ان کے بڑے بھائی اور سابق وزیر اعظم نواز شریف ماضی میں بھارت کے ساتھ مفاہمت کی کوشش کر چکے ہیں اور جلاوطنی سے واپسی کے بعد انہوں نے کئی مصالحت پسندانہ بیانات دیے ہیں۔
ووٹوں کی گنتی کے دوران نواز شریف نے بھارت کے نام بالواسطہ پیغام میں کہا تھا، ''انشاء اللہ ہمارے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات بہتر ہوں گے۔‘‘
بھارت انتخابی تنازع سے دور رہے گا
پاکستان میں بھارت کے سابق ہائی کمشنر اجے بساریا کا کہنا ہے کہ نئی دہلی پاکستان کو ویسا ہی دیکھنا پسند کرتا ہے جیسا کہ اسے ہونا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ بھارتی حکومت ممکنہ طور پر انتخابی نتائج میں دھاندلی کے الزامات پر خاموشی اختیار کرے گی، حالانکہ یہ واضح نظر آتا ہے کہ انتخابی عمل میں کافی خامیاں تھیں اور ''فوج کا عمل دخل‘‘ بھی تھا۔
انہوں نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ''اس کے برعکس امریکہ نے انتخابات کو مسابقتی قرار دیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا، ''یہ امریکہ کے مفاد میں ہے کہ وہ پاکستان کو جمہوری اقدار پر تولنے اور عمران خان کی واپسی کی تائید کا خطرہ مول لینے کے بجائے پاکستانی فوج کے ساتھ خوشگوار تعلقات رکھے۔‘‘
پاکستان کے موجودہ سیاسی بحران پر بھارتی تجزیہ کار کیا کہتے ہیں؟
سابق ہائی کمشنر کے مطابق بھارت کے لیے اہم مسئلہ یہ ہے کہ آیا نئی حکومت سرحد پار دہشت گردی کے مسئلے سے نمٹنے کی اہل ہے یا نہیں؟
انہوں نے بتایا، ''بھارت کو ایسی کوئی خوش فہمی نہیں کہ پاکستان آرمی بھارت کے حوالے سے پاکستان کی پالیسی طے نہیں کرے گی۔ موجودہ حالات میں کسی بھی سویلین حکومت کے پاس اپنی مرضی سے کرنے کے لیے کچھ نہیں ہو گا۔ تاہم بھارت کے حوالے سے عمران خان کی پی ٹی آئی کی تین سالہ حکومت کے مقابلے میں شریف برادران کا ریکارڈ زیادہ بہتر ہے۔‘‘
بھارت سے متعلق موقف میں کوئی تبدیلی نہیں
بھارت اور پاکستان ایک طویل عرصے سے کشمیر اور سرحد پار دہشت گردی کے معاملے میں ایک دوسرے کے ساتھ اختلافات کا شکار ہیں۔ بھارت کی طرف سے سن 2019 میں نئی دہلی کے زیر انتظام کشمیر کی آئینی حیثیت بدل دیے جانے کے بعد پاکستان نے دو طرفہ تجارت کو معطل کر دیا تھا اور باہمی سفارتی تعلقات بھی تاحال منجمد ہیں۔
پاکستان حالانکہ سن 2008 سے باقاعدہ سویلین حکمرانی میں رہا ہے تاہم ملکی فوج نے سیاسی امور میں اپنا مضبوط اثر و رسوخ برقرار رکھا ہے۔
ایمہرسٹ کالج کے اسکول آف پبلک پالیسی میں وزیٹنگ چیئرپرسن شانتی میریئٹ ڈی سوزا کا خیال ہے کہ پاکستانی فوج اپنے اثر و رسوخ کو برقرار رکھے گی۔
'ایل او سی سے متعلق بھارتی وزیر کا بیان قابل مذمت'، پاکستان
ڈی سوزا نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ گفتگو میں کہا، ''اس بات سے قطع نظر کہ کوئی بھی پارٹی جیتے یا مخلوط حکومت بنائے، پاکستان میں سول ملٹری تعلقات کا جھکاؤ فوج کے حق میں ہی ہے۔ پاکستان میں کبھی بھی کوئی بہت مضبوط سویلین حکومت نہیں رہی۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت اور پاکستان کے مابین امن مساعی کبھی بھی حقیقی کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکیں۔‘‘"
ڈی سوزا کہتی ہیں کہ نواز شریف کی طرف سے امن پسندی کی کوئی بھی کوشش پاکستانی فوج کی رضا مندی کے بغیر ممکن ہی نہیں۔
ج ا/م م (مرلی کرشنن، نئی دہلی)