بھارت کے زیرانتظام کشمیر، مواصلات کا نظام تاحال بند
6 اگست 2019انسانی حقوق کی تنظیموں اور میڈیا کی جانب سے اس بھارتی اقدام پر شدید تنقید کی جا رہی ہے اور اسے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔ خدشات ظاہر کیے جا سکتے ہیں کہ اس بھارتی اقدام کے بعد کشمیر کے خطے میں نئے مظاہرے شروع ہو سکتے ہیں اور تشدد کے ایک نئے سلسلے کا آغاز ہو سکتا ہے۔
بھارتی فیصلہ: پاکستان میں رد عمل
کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم، سوشل میڈیا پر طوفان
حکومتی بیان کے مطابق اتوار سے کشمیر میں ٹیلی کمیونیکشن اور میڈیا کی بندش کی وجہ وہاں تشدد کے ممکنہ واقعات کی روک تھام ہے۔
دوسری جانب کشمیریوں کا کہنا ہے کہ مودی حکومت کی جانب سے ٹیلی کمیونیکشن نظام کی بندش سے وہ ریاست میں ہونے والے امور سے مکمل طور پر بے خبر ہیں، جب کہ ان کا موقف سرے سے غائب ہے۔
پیر کے روز بھارت کی جانب سے دستور میں تبدیلی کا اعلان کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ کشمیر کو دستوری طور پر دستیاب خصوصی حیثیت ختم کی جا رہی ہے، جس میں اس شق کا خاتمہ بھی شامل ہے کہ کوئی بھارت کے کسی بھی دوسرے حصے کا باسی کشمیر میں نہ تو مستقل سکونت اختیار کرنے کا مجاز ہے اور نہ ہی اسے وہاں جائیداد یا املاک خریدنے کا اختیار ہے۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ کشمیر میں کالجوں میں داخلوں اور سرکاری نوکریوں تک بھی اب مقامی رہائشیوں کے علاوہ دیگر بھارتی شہریوں کی رسائی ہو جائے گی۔
کشمیر میں اس سے قبل بھی موبائل اور انٹرنیٹ سروس کی معطلی ہوتی رہے ہیں، تاہم اس بار وہاں لینڈ لائن اور کیبل ٹی وی نیٹ ورک تک بند کر دیے گئے ہیں۔
ایک اعلیٰ حکومتی عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ نئی دہلی حکومت کی جانب سے یہ اقدام 'احتیاطی‘ طور پر کیا گیا ہے اور جوں ہی زندگی معمول کی جانب لوٹے گی، ان پابندیوں کو ختم کر دیا جائے گا۔ دوسری جانب انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ شہری آزادی پر اس انداز کا حملہ کشمیری باشندوں کو بھارت کے مرکزی دھارے سے مزید دور کر دے گا اور اس سے وہاں انسانی حقوق کی مزید پامالیوں کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔
ع ت، ک م (روئٹرز، اے ایف پی)