1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارتی حکومت اور کشمیر ی اپوزیشن لیڈروں کی میٹنگ میں ڈیڈ لاک

16 ستمبر 2010

نئی دہلی کی مرکزی حکومت نے بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے فعال اپوزیشن لیڈروں سے بحرانی صورت حال پر بات چیت کی اور اسی دوران دوسری جانب کشمیر میں بھارت مخالف مظاہروں میں مزید چار افراد ہلاک ہو گئے۔

https://p.dw.com/p/PD78
منموہن سنگھ سابقہ سری نگر کے دورے پرتصویر: AP

بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ نےتقریباً 18مظاہرین کی ہلاکت کے بعد کشمیری اپوزیشن لیڈروں سے جو ملاقات کی اس میں کوئی پیش رفت سامنے نہیں آئی۔ بھارتی وزیر اعظم نے ایک بار پھر کشمیری لیڈران پر واضح کیا کہ مسلسل مذاکرات ہی مسئلے کے حل میں اور پائیدار امن کے حصول میں معاونت کر سکتے ہیں۔ اس ملاقات میں فریقین یہ بھی طے نہیں کر سکے کہ کس طرح جموں و کشمیر میں سکیورٹی بابت نافذہ پابندیوں کو ختم کیا جائے۔ خاص طور پر فوج کوجو اضافی اختیارات حاصل ہیں ان میں کیسے کمی لائی جائے۔ صرف یہ طے پایا کہ سیاستدانوں کا ایک خصوصی کمیشن کشمیر روانہ کیا جائےگا، جو اصل حقائق جاننے کی کوشش کرےگا۔

دوسری جانب اعلیٰ کشمیری لیڈروں نے اس بات چیت کے عمل کو فرضی اور ٹال مٹول کا حیلہ قرار دیا ہے۔ ان لیڈروں میں سید علی گیلانی اوریسین ملک سرفہرست ہیں۔

بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں تین ماہ سے انتشار کی صورت حال قائم ہے۔ حکومت مخالف مظاہرے ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے۔ ان مظاہروں میں مسلسل ہلاکتیں سری نگر اور دوسرے علاقوں کے کشمیریوں کو مشتعل کرنے کا سبب بن رہی ہیں۔

Indien Srinagar Ausgangssperre
سری نگر کے ایک چوک پر خاردار تارتصویر: UNI

اس حوالے سے تازہ ترین ہلاکتیں چار بتائی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ پونچھ کے ضلع میں کم از کم چالیس افراد کے زخمی ہونے کو بھی رپورٹ کیا گیا ہے۔ مظاہروں کا سلسلہ سری نگر سے باہرکے علاقوں تک پھیل گیا ہے۔ بھارت کے اندر سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ موجودہ صورت حال سے پاک بھارت تعلقات میں ایک مرتبہ پھر تناؤ پیدا ہونے کا قوی امکان ہے۔ بھارت میں حکومت کا خیال ہے کہ مظاہروں کے پس پردہ پاکستان کے اندر قائم انتہاپسند مذہبی عسکری تنظیموں کا ہاتھ ہے لیکن اس مناسبت سے بدھ کو حکومتی سطح پر اس کا اعتراف کیا گیا کہ موجودہ مظاہروں میں عوامی سطح پر پایا جانے والا وہ ملال بھی شامل ہے ، جو حکومتی کارروائیوں کے نتیجے سے پیدا ہوا ہے۔ کانگریس کی صدر سونیا گاندھی کا بھی کہنا ہے کہ یہ اہم ہے کہ کشمری عوام میں پائے جانے والے غصے کی وجوہات ڈھونڈی جائیں۔

اس مناسبت سے بھارتیہ جنتا پارٹی نے کشمیرمیں کسی بھی قسم کی ریاستی خومختاری کی ایک بار پھر مخالفت کے ساتھ ساتھ سکیورٹی قوانین میں نرمی کی بھی مخالفت کی ہے۔

رپورٹ: عابد حسین

ادارت: عدنان اسحاق

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں