بھارتی سلیکون ویلی پیاسی ہو رہی ہے
5 جون 2019تھومس روئٹرز فاؤنڈیشن نے بنگلور میں پانی کی قلت کے موضوع پر ایک تجزیاتی رپورٹ مرتب کی ہے۔ اس رپورٹ میں چندرا شیکھر کا ذکر کیا گیا ہے، جو اس وقت کو یاد کر رہے ہیں، جب اس جنوبی بھارتی شہر میں متعدد جھیلیں ہوا کرتی تھیں اور باغات ہوتے تھے،''یہ سب کچھ غائب ہو گیا۔ انہیں عمارتیں بنانے کے لیے استعال کر لیا گیا۔‘‘
آج اس شہر کو پانی کی کمی کا سامنا ہے اور شیکھر جیسے کئی شہریوں کو پانی کے لیے تپتی دھوپ میں ٹینکر کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ انسٹھ سالہ شیکھر ریٹائرڈ انجینیئر ہیں۔ انہوں نے بھارت کے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اس مرکز کو تبدیل ہوتے دیکھا ہے، ''بنگلور جھیلوں کے شہر سے کنکریٹ کے شہر میں بدل چکا ہے۔ اس وجہ سے تمام پانی غائب ہو گیا ہے۔‘‘
نقل مکانی کی وجہ سے شہر کی آبادی میں ہونا والے ہوش ربا اضافے، تعمیرات اور پانی کی ترسیل کے نظام کے انتظامی امور کے مسائل کی وجہ سے نلکے خشک ہوتے جا رہے ہیں۔ اسی وجہ سے زیر زمین پانی کی سطح بھی مزید نیچے چلی گئی ہے۔
بنگلور اپنی ترقی کی بہت مہنگی قیمت ادا کر رہا ہے۔ بنگلور1990ء کی دہائی سے بھارت اور دنیا بھر کے ٹیکنالوجی کے شوقین افراد کے لیے پرکشش بننا شروع ہو گیا تھا۔ مائیکروسافٹ، آئی بی ایم، ڈیل اور گوگل جیسی بڑی بڑی کمپنیوں اس شہر کا رخ کیا۔
اس شہر کا رقبہ تین دہائیوں کے دوران تین گنا بڑھ چکا ہے۔ اس دوران بہت سے قریبی علاقے اور دیہات اس شہر کا حصہ بن چکے ہیں۔
بنگلور کی آبادی 2001ء کے بعد سے دو گنا ہو کر بارہ ملین ہو چکی ہے اور ماہرین کا اندازہ ہے کہ2031ء تک اس شہر میں بیس ملین سے زائد شہری آباد ہوں گے۔