بھارتی شہریت ترمیمی قانون، بنگلہ دیش کے بعد افغان بھی ناخوش
21 جنوری 2020سابق افغان صدر حامد کرزئی کا کہنا ہے کہ ”شہریت ترمیمی قانون(سی اے اے) بھارت کا اپنا فیصلہ ہے اور اس حوالے سے قانون بنانے کے اپنے اسباب ہوسکتے ہیں لیکن افغانستان میں کسی اقلیت کو نہیں ستایا گیا ہے۔"
حامد کرزائی کا یہ بیان اس لحاظ سے اہم ہے کہ مودی حکومت نے سی اے اے کو پارلیمان سے منظور کراتے وقت بار بار یہ دلیل دی تھی کہ پاکستان اوربنگلہ دیش کے علاوہ افغانستان میں ہندووں، سکھوں، مسیحیوں،جینیوں، بودھوں اورپارسیوں کو مذہبی بنیاد پر تعصب اور زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے اوراسی لیے وہ زیادتی کے شکار ان لوگوں کو بھارتی شہریت دینا چاہتی ہے۔
دہلی میں رائے سینا ڈائیلاگ میں شرکت کے لیے آئے حامد کرزئی نے ایک روزنامہ کو دیے گئے انٹرویو میں واضح لفظوں میں کہا، ”ہم ایک عرصے سے جنگ اور تصادم جھیل رہے ہیں۔ افغانستان میں رہنے والے اقلیتی آبادی کا کوئی بھی شخص زیادتی کا شکار نہیں ہوا ہے۔ تمام افغانیوں کو مصائب سے دوچار ہونا پڑا ہے۔" انہوں نے کہا کہ افغان عوام غیر مسلموں کے ساتھ کسی بھی طرح کا کم تر سلوک نہیں کرتے۔ بھارت میں افغانستان کے متعلق جو بدگمانی ہے افغانستانی عوام اس کے بالکل برعکس ہیں۔‘‘
اس سے قبل بھارت میں افغانستان کے سفیر نے بھی سی اے اے پر اعتراض کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ افغانستان کو پاکستان سے جوڑ کر دیکھنا درست نہیں ہے اور افغانستان میں حکومت اقلیتوں کے ساتھ کسی طرح کا نامناسب سلوک نہیں کرتی۔ خیال رہے کہ بھارت کے مختلف حصوں میں افغان مسلمان مقیم ہیں۔ لیکن ان کی درست تعداد اور بھارتی شہریت حاصل کرنے کی درخواست دینے کی تفصیلات دستیاب نہیں ہیں۔
بنگلہ دیش کا اعتراض
دو روز قبل بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ نے گلف نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے سی اے اے پر اعتراض کیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا، ”وہ نہیں سمجھ پارہی ہیں کہ بھارت سرکار کو اس طرح کے قانون لانے کی کیا ضرورت تھی۔ اُن کے ملک میں کسی بھی شخص کے ساتھ مذہبی بنیاد پر زیادتی نہیں ہوئی ہے۔"
شیخ حسینہ کے بیان سے قبل بنگلہ دیش کے وزیر خارجہ اے کے عبدالمومن نے کہا تھا کہ سی اے اے اور این آر سی(شہریت کا قومی رجسٹر) بھارت کے داخلی معاملات ہیں لیکن کسی ملک میں غیر یقینی صورت حال سے اس کے پڑوسی ملکوں کے متاثر ہونے کا خدشہ رہتا ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق سن 2014 میں مودی حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد سے بھارت کی بعض پالیسیوں اور اقدامات کی وجہ سے بنگلہ دیش مسلسل چین کے قریب ہوتا جا رہا ہے جو بھارت کے مفاد میں نہیں ہے۔