بھارت:عدالت نے سلمان رشدی کی 'شیطانی آیات'پر پابندی ختم کردی
8 نومبر 2024دہلی ہائی کورٹ نے متنازعہ مصنف سلمان رشدی کی کتاب 'دی سیٹینک ورسز‘ کی بھارت میں درآمد پر عائد پابندی ختم کر دی ہے، کیونکہ حکومتی اہلکار اس پابندی کا اصل نوٹیفکیشن عدالت کے سامنے پیش نہیں کرسکے۔ بھارتی وزارت داخلہ اور وزارت خزانہ نے اس پیش رفت پر فوری طور پر تبصرہ کی درخواستوں کا جواب نہیں دیا۔
ستمبر 1988 میں 'دی سیٹینک ورسز‘ اشاعت کے فوراً بعد ایک عالمی تنازعہ کی شکار ہو گئی تھی، کیونکہ مسلمانوں کے ایک بڑے حلقے کے مطابق اس میں پیغمبر اسلام کے بارے میں توہین آمیز باتیں لکھی گئی تھیں۔
فروری 1989 میں ایران کے اس وقت کے سپریم لیڈر آیت اللہ روح اللہ خمینی نے سلمان رشدی اور ان کے پبلشرز کے خلاف فتویٰ جاری کیا۔ اس کے بعد دنیا کے مختلف ملکوں میں پرتشدد مظاہرے ہوئے اور کتاب کے جاپانی مترجم ہیتوشی اگاراشی کو چاقو مار کر قتل کر دیا گیا، جس کے بعد سلمان رشدی کو مجبوراً ایک دہائی تک لندن میں چھپنا پڑا۔
’اب اسلام محبت اور امن کا مذہب کیسے کہلا سکتا ہے‘ رشدی
اگست 2022 میں، فتویٰ کے تقریباً 33 سال بعد، رشدی کو نیویارک میں ایک لیکچر کے دوران اسٹیج پر چھرا گھونپ دیا گیا، جس سے وہ ایک آنکھ سے نابینا ہو گئے اور ان کا ایک ہاتھ بھی متاثر ہوا۔
اس کتاب پر بھارت، جنوبی افریقہ اور پاکستان سمیت مختلف ممالک میں پابندی عائد کر دی گئی تھی۔
معاملہ کیا تھا؟
بھارتی حکومت نے پانچ اکتوبر 1988 کو وزارت خزانہ کے کسٹم آرڈر کے ذریعے 'دی سیٹینک ورسز‘ کی درآمد پر پابندی عائد کردی تھی۔
درخواست گزار سندیپن خان نے سینٹرل بورڈ آف انڈائریکٹ ٹیکسز اینڈ کسٹمز (سی بی آئی سی) کے خلاف 2019 میں ایک رٹ پٹیشن دائر کی تھی، جس میں کسٹم ایکٹ 1962 کے تحت درآمد پر پابندی لگانے والے نوٹیفکیشن کے آئینی جواز کو چیلنج کیا گیا تھا۔
سلمان رشدی کے خلاف فتویٰ کب اور کیوں آیا؟
سندیپن خان براہ راست پبلشر یا متبادل ذرائع سے کتاب درآمد کرنے کی اجازت مانگ رہے تھے۔ سندیپن نے اپنی درخواست میں استدعا کی تھی کہ عدالت تمام ریاستی حکومتوں اور وفاقی علاقوں کو یہ پیغام دے کہ کتاب کی درآمد پر پابندی بھارتی آئین کی حدود سے باہر یا 'اختیارات سے ماورا‘ ہے۔
درخواست گزار نے عدالت کو یہ بھی بتایا کہ انہوں نے 2017 میں رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ کے تحت ایک درخواست دائر کی تھی، جس میں نوٹیفکیشن کی کاپی کی درخواست کی گئی تھی اور انہیں ملنے والے جواب میں کہا گیا کہ نوٹیفکیشن والی متعلقہ فائل کا سراغ نہیں لگایا جاسکا، لہذا اسے پیش نہیں کیا جا سکتا۔
عدالت نے کیا کہا؟
دہلی ہائی کورٹ نے'دی سیٹینک ورسز‘ کی بھارت میں درآمد پر عائد پابندی یہ کہتے ہوئےختم کر دی کہ حکومتی اہلکار اس پابندی کا اصل نوٹیفکیشن عدالت کے سامنے پیش نہیں کرسکے۔
نومبر 2022 میں عدالت نے کہا تھا کہ سندیپن خان 'مذکورہ فائل کا سراغ لگانے کی کوشش کرنے کا آخری موقع چاہتے ہیں‘ اور مدعا علیہ کو ایک حلف نامہ جمع کروانا ہو گا، اگر قانونی نوٹیفکیشن گم ہو گئے یا غلط جگہ پر رکھ دیے گئے ہوں تو کیا طریقہ کار اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔
مودی کی خاموشی، عیارانہ تشدد کی ذمہ دار ہے: سلمان رشدی
کئی عدالتی تاریخوں کے بعد، آخرکار پانچ نومبر کے ایک حکم میں، دہلی کی عدالت نے سندیپن خان کی درخواست نمٹاتے ہوئے کہا، "ان حالات کی روشنی میں، ہمارے پاس یہ فرض کرنے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہے کہ ایسا کوئی نوٹیفکیشن موجود نہیں ہے، لہٰذا ہم اس کی قانونی حیثیت کا جائزہ نہیں لے سکتے اور رٹ پٹیشن کو غیر مؤثر سمجھتے ہوئے اسے نمٹا دیتے ہیں۔"
درخواست گزار سندیپن خان کے وکیل ادیم مکھرجی نے کہا، "5 نومبر سے پابندی ہٹا دی گئی ہے کیونکہ پابندی کے نوٹیفیکیشن کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔"