سلمان رشدی ایک آنکھ کی بینائی سے محروم، ایک ہاتھ بھی ناکارہ
24 اکتوبر 2022متنازع مصنف سلمان رشدی کے ایجنٹ اینڈریو وائلی نے ہسپانوی اخبار 'ایل پیس' کو بتایا کہ اس سال اگست میں نیویارک میں ایک ادبی تقریب کے دوران ایک شخص نے اسٹیج پر آکر ان کے موکل کو بار بار چاقو مار کر بری طرح زخمی کر دیا تھا۔ اس حملے کے نتیجے میں رشدی کی ایک آنکھ کی بینائی چلی گئی اور ان کا ایک ہاتھ بھی ناکارہ ہوگیا ہے۔
اینڈریو وائلی نے بتایا ''وہ ایک آنکھ کی بینائی سے محروم ہو گئے ہیں... ان کی گردن میں تین سنگین زخم آئے ہیں۔ ایک ہاتھ اس لیے ناکارہ ہے کیونکہ بازو کے اعصاب کٹ گئے ہیں اور سینے اور دھڑ میں تقریباً 15 مزید زخم ہیں''۔
وائلی نے زخموں کو ''گہرا'' قرار دیتے ہوئے کہا کہ ''یہ ایک وحشیانہ حملہ تھا۔''
ایجنٹ نے تاہم یہ بتانے سے انکارکر دیا کہ آیا ''شیطانی آیات" (دی سیٹینک ورسیز) کے 75 سالہ مصنف اب بھی اسپتال میں ہیں۔ انہوں نے البتہ کہا کہ "وہ صحت یاب ہو رہے ہیں... اور یہ اہم بات ہے۔"
توہین مذہب پر مبنی فلم اور رشدی کا ناول
پولیس نے بتایا تھا کہ نیو جرسی سے تعلق رکھنے ایک 24 سالہ شخص نے سلمان رشدی کی گردن اور دھڑ میں چاقو سے پے درپے وار کیے تھے۔ بفلو سے تقریباً 90 کلومیٹر کی دور ایری جھیل کے قریب واقع شیتوقوا انسٹی ٹیوشن میں انہیں اسٹیج پر متعارف کرایا جا رہا تھا کہ ایک شخص نے اسٹیج پر آکر ان پر چاقو سے حملہ کردیا۔ حملے میں وہ شدید زخمی ہوگئے اورانہیں فوری ہسپتال منتقل کیا گیا، جہاں وہ کئی روز تک وینٹی لیٹر پر رکھے گئے۔ چاقو حملے میں ان کے بازو کے اعصابی نظام کو شدید نقصان پہنچا اور ان کے جگر میں بھی زخم آئے تھے۔ ان کی ایک آنکھ بھی متاثر ہو گئی تھی۔
فتوے کے خوف کے سائے میں زندگی
ایران کے روحانی پیشوا آیت اللہ خمینی کی جانب سے رشدی کے ناول ''شیطانی آیات'' پر 1989 میں ان کے خلاف ''فتویٰ'' جاری کرنے کے بعد سے ہی انہوں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ روپوشی میں گزارا۔
خمینی نے اس ناول کوپیغمبر اسلام کے بارے میں توہین آمیز قرار دیا تھا اور سلمان رشدی کو قتل کرنے والے کو تین ملین ڈالر انعام دینے کا اعلان کیا گیا تھا۔ حالانکہ بعد میں ایران کی حکومت نے خمینی کے اس فتوے سے خود کو الگ کرلیا تاہم یہ فتوی اب بھی بدستور موجود ہے اور ایک نیم سرکاری ایرانی مذہبی ادارے نے سن 2012 میں انعام میں مزید پانچ لاکھ ڈالر کا اضافہ کیا۔
برسوں تک سخت حفاظتی تنہائی کے بعد رشدی نے گزشتہ دو دہائیوں کے دوران دوبارہ آزادانہ طور پر سفر کرنا شروع کردیا تھا۔ رشدی نے ماضی میں اس بارے میں بات بھی کی تھی کہ کس طرح انہوں نے کبھی بھی خطرے سے خود کو محفوظ نہیں سمجھا۔
ان کے ایجنٹ وائلی نے کہا کہ حملہ بالکل وحشیانہ انداز میں ہوا، جس کا انہیں اور ان کے آجر کو خوف تھا کہ اچانک ایک شخص کہیں سے نمودار ہواور حملہ کر دے۔" انہوں نے مزید کہا"آپ اس سے حفاظت نہیں کرسکتے کیونکہ یہ بالکل غیر متوقع اورغیر منطقی تھا۔"
اس حملے کی مغرب اور آزادی اظہار کے حامیوں نے سخت مذمت کی لیکن ایران اور پاکستان جیسے مسلم ممالک میں بعض انتہاپسندوں نے اس کی تعریفیں بھی کیں۔
ملزم اقدام قتل کے مقدمے کا منتظر
جائے واردات پر ہی ایک لبنانی نژاد 24 سالہ امریکی ہادی مطر کو گرفتار کرلیا گیا تھا۔ مطر نیوجرسی میں رہتے ہیں اور انہوں نے قتل کی کوشش کا اعتراف نہیں کیا ہے۔
ہادی مطر نے تاہم واردات کے فوراً بعد ایک اخبار کو دیے گئے انٹرویو میں کہا تھا کہ انہیں یہ سن کر حیرت ہوئی ہے کہ اس حملے میں رشدی کی موت نہیں ہوئی۔ انہوں نے خمینی کی تعریف کی اور کہا کہ وہ رشدی اور "شیطانی آیات" کو پسند نہیں کرتے، جس کے "صرف چند صفحات" انہوں نے پڑھے ہیں۔
ہادی مطر کے وکیل نے متنبہ کیا ہے کہ اس طرح کے انٹرویو کی اشاعت سے انصاف کا حصول مشکل ہو سکتا ہے۔
ایران کی موجودہ حکومت، جو اس وقت سخت مذہبی قوانین کے خلاف مظاہروں کا سامنا کر رہی ہے، نے چاقو زنی کے واقعے کے بعد کہا تھا کہ "کسی کو ایران پر الزام لگانے کا حق نہیں ہے، رشدی کے ساتھ جو کچھ ہوا اس کے لیے وہ خود اور ان کے حامی ذمہ دار ہیں اور مذمت کے لائق ہیں۔"
سلمان رشدی پر حملہ: ایران کی کسی بھی طرح ملوث ہونے کی تردید
ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے رشدی پر "دنیا کے ڈیرھ ارب مسلمانوں کی دل آزاری" کا الزام لگایا۔
رشدی کو بکر پرائز کے لیے پانچ مرتبہ نامزد کیا گیا اور ایک مرتبہ انہوں نے یہ انعام حاصل کیا۔ روپوشی کے باوجود انہوں نے تصنیف و تالیف کا سلسلہ جاری رکھا۔ ان کا پندرہواں ناول "وکٹری سٹی" آئندہ فروری میں شائع ہونے والا ہے۔
ج ا/ ص ز (اے ایف پی، ا ی ایف ای، روئٹرز)