بیناؤں کے حقوق کی جنگ لڑنے والے نابینا زاہد عبداللہ
1 اگست 2017کسی بھی طرح کی جسمانی معذوری، مشکل سماجی صورت حال یا شہری حقوق کی عمومی نفی کی معاشرتی روایت کے آگے ہتھیار ڈال دینے سے ہمیشہ انکار کر دینے والی اس شخصیت کا نام ہے زاہد عبداللہ۔ زاہد بصارت سے محروم یا نابینا ہیں لیکن انہوں نے دو مضامین میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے، انگلش اور ڈویلپمنٹ اسٹڈیز میں۔ وہ ایک مصنف بھی ہیں اور پیشے کے اعتبار سے پاکستان میں ترقیاتی شعبے سے منسلک ہیں۔ زاہد عبداللہ کئی برسوں سے اپنے ملک کی ان بلند ترین آوازوں میں شمار ہوتے ہیں، جو کروڑوں عام شہریوں کے معلومات کے حق کی کامیابی سے وکالت کر رہی ہیں۔
یہ معاشرے کے ہر فرد کے لیے ہر قسم کے جمہوری شہری حقوق کی جدوجہد کرنے والے زاہد عبداللہ جیسے انتھک کارکنوں کی محنت ہی کا نتیجہ ہے کہ پاکستان کے تین صوبوں میں عوام کے معلومات کے حق سے متعلق قانون سازی ہو چکی ہے۔ اس قانون سازی کی بنیاد یہ مہم بنی کہ اہم معلومات تک رسائی کا حق یا 'رائٹ ٹو انفارمیشن‘ ایک ایسا شہری حق ہے، جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔
اسی جدوجہد اور اس کے نتائج کی وجہ سے زاہد عبداللہ پاکستانی معاشرے کے ایک ایسے ہیرو کی طرح ہیں، جن کی کاوشوں سے تمام شہریوں کو فائدہ پہنچ رہا ہے۔ ان پاکستانیوں کو بھی جو انہیں جانتے ہیں اور ان کو بھی جنہوں نے کبھی ان کا نام تک نہیں سنا۔ عنقریب اپنی زندگی کی پانچ دہائیاں پوری کر لینے والے زاہد عبداللہ عام لوگوں کی طرح بینا نہیں ہیں۔ لیکن انہوں نے نابینا ہونے کو کبھی اپنے راستے کی رکاوٹ بھی نہیں بننے دیا۔ وہ اپنے احساس سے آنکھوں کا کام لیتے ہیں اور اپنی یہی آنکھیں انہوں نے اپنے مقصد پر لگا رکھی ہیں۔
زاہد عبداللہ 1968ء میں سرگودھا کے ایک زمیندار گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد پاکستانی فوج میں تھے۔ زاہد کل نو بہن بھائیوں میں سے سب سے بڑے ہیں۔ وہ پیدائشی نابینا نہیں ہیں۔ بچپن میں انہیں دکھائی دیتا تو تھا لیکن بہت کم۔ جب وہ چھ برس کے ہوئے تو سوال یہ اٹھا کہ انہیں کسی اسکول میں داخل کرایا جائے یا کسی مدرسے میں بھیج دیا جائے۔ زاہد کی والدہ نے، جو اپنے دور کی صرف چار جماعتیں پاس تھیں، بیٹے کی آنکھوں میں بینائی کی کمی کو اس کی عمر بھر کی معذوری سمجھ کر محض کسی مدرسے میں تعلیم کے لیے بھیجنے سے انکار کر دیا۔
ایک ماں کا اپنے بیٹے کی بصارت کے حوالے سے ہار مار لینے سے یہی انکار زاہد عبداللہ کی زندگی کا سب سے اہم فیصلہ ثابت ہوا۔ زاہد کے بقول تب ان کی والدہ نے کہا تھا، ’’میرا بیٹا اسکول جائے گا۔ وہ ایم اے انگلش بھی کرے گا۔‘‘ پھر زاہد نے اسکول جانا شروع کیا اور بالآخر ایم اے انگلش بھی کر لیا۔
ایم اے کرنے کے بعد زاہد پہلے تو گھروں میں ٹیوشن پڑھاتے رہے اور پھر نوکری کی تلاش میں اسلام آباد بھی پہنچ گئے۔ اسی دور میں انہوں نے نابینا افراد کے لیے خاص طور پر تیار کردہ وہ کمپیوٹر سافٹ ویئر بھی لے لیا، جس کی مدد سے کمپیوٹر پر کسی بھی تحریر کو سنا جا سکتا ہے۔ اس طرح زاہد کی لکھنے پڑھنے سے متعلق مشکلات کافی کم ہو گئیں اور انہوں نے بحریہ، اقراء اور دیگر یونیورسٹیوں میں پڑھانا شروع کر دیا۔ 2001 ء میں ان کی شادی بھی ہو گئی تھی اور اب وہ تین بیٹیوں کے والد ہیں۔ انہوں نے اپنا دوسرا ایم اے 2004 ء میں ڈویلپمنٹ اسٹڈیز میں کیا۔
پاکستان میں ترقی تعلیم کے ذریعے، سیما عزیز کا مشن
عزم و ہمت کی اعلیٰ مثال منیبہ مزاری کے لیے نیا اعزاز
ڈوئچے ویلے کے ساتھ ایک تفصیلی انٹرویو میں جب ان سے پوچھا گیا کہ عوام کے ’رائٹ ٹو انفارمیشن‘ کی کوششیں انہوں نے کب شروع کی تھیں، تو زاہد عبداللہ نے بتایا، ’’جب مجھے یہ پتہ چلا کہ رائٹ ٹو انفارمیشن کا قانون پاکستان میں موجود ہی نہیں، تو میں نے اس پر تحقیق کی اور اس شعبے میں بین الاقوامی قوانین کو پڑھنا شروع کیا۔ اس نتیجے تک پہنچنا قدرتی بات تھی کہ پاکستان میں بھی ایسے قوانین کو ہونا ضروری ہے۔‘‘
پاکستان میں اس موضوع پر کتنی قانون سازی ہو چکی ہے اور مجموعی صورت حال کیا ہے؟ اس سوال کے جواب میں انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''یہ ریسرچ کر لینے کے بعد کہ پاکستان میں رائٹ ٹو انفارمیشن کا کوئی قانون نہیں ہے، ہم نے پہلے تو ایڈووکیسی شروع کی۔ ساتھ ساتھ حکومت کو ہزاروں کی تعداد میں اس موضوع پر قانون سازی کے لیے درخواستیں بھی دیں۔ اب تین صوبوں پنجاب، سندھ اور خیبر پختونخوا میں قانون سازی ہو چکی ہے۔ پنجاب میں تو اس قانون پر عمل درآمد بھی ہو رہا ہے۔‘‘
بہت سے سماجی ماہرین کے مطابق کسی بھی ترقی پذیر معاشرے میں اجتماعی بہتری اور ترقی کے سفر میں ترجیحات انتہائی اہم ہوتی ہیں۔ کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ جہاں غربت، بے روزگاری اور ناخواندگی کی شرح بہت زیادہ ہو، جہاں معذور افراد کے حقوق اور ضروریات تک کو عوامی اور حکومتی سطح پر اکثر نظر انداز کر دیا جاتا ہو، وہاں لوگوں کی معلومات تک رسائی کا معاملہ بھلا کتنا ضروری ہو سکتا ہے؟
زاہد عبداللہ کے بقول یہ سوال بھی اسی بحث کی طرح ہے کہ پہلے مرغی تھی یا انڈہ۔ انہوں نے کہا، ’’یہ بحث بھی بڑی طویل ہے کہ آگہی ترقی اور خوشحالی سے آتی ہے یا ترقی اور خوشحالی آگہی سے۔ لیکن سچ یہ ہے کہ آپ پہلے انفارمیشن دیں گے تو پھر خوشحالی آئے گی۔ جب تک لوگوں کو علم ہی نہ ہو کہ ان کے مسائل کیا ہیں اور وسائل کیا، اور مسائل کے حل کے لیے وسائل کو کیسے استعمال کیا جانا چاہیے، تب تک دیرپا ترقی اور خوشحالی کا تصور بھی ممکن نہیں۔‘‘
زاہد عبداللہ دو کتابوں کے مصنف بھی ہیں: Disabled by Society اور A Wise Man۔ زاہد پاکستان میں معذور افراد کے حقوق کے لیے بھی بڑے سرگرم ہیں۔ پاکستان میں معذور شہریوں کے ساتھ عمومی سماجی رویے کیسے ہوتے ہیں، اس سوال کے جواب میں زاہد عبداللہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ہمارے معاشرے میں معذور افراد کے بارے میں جو گفتگو کی جاتی ہے وہ بہت خطرناک ہوتی ہے، غیر عملی اور ذمے داری کے احساس سے عاری۔ مثال کے طور پر ہماری ایک تقریب میں پاکستان کے ایک وفاقی وزیر تشریف لائے اور کہنے لگے، ’آپ نابینا لوگ تو بہت معصوم ہیں۔ بخشے بخشائے، سیدھے جنت میں جائیں گے۔ اچھا ہی ہے، جتنی بے حیائی اب ہے اور ماحول خراب ہو چکا ہے، اچھا ہی ہے، کہ آپ اسے نہ ہی دیکھیں‘۔ اس طرح کی فضول اور دقیانوسی باتیں نابینا اور دیگر معذوروں کو اکثر سننےکو ملتی ہیں۔ اور ساتھ ہی ترس اور بےچارگی سے عبارت لہجہ بھی۔‘‘
پاکستان میں معذور افراد کی مجموعی تعداد کے بارے میں انہوں نے کہا، ’’جو تعداد حکومت بتاتی ہے، مجھے اس سے ہرگز اتفاق نہیں۔ اس لیے کہ ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ جو بچہ یا بڑا معذور ہو، ہم اسے چھپاتے رہتے ہیں۔ تو اصل تعداد کہاں سے سامنے آئے گی؟‘‘ زاہد کے بقول پاکستان میں لوگ کسی معذور شہری کو ’اسپیشل پرسن‘ کہہ کر اپنا ضمیر مطمئن کر لیتے ہیں۔ اطمینان ایسے نہیں آتا۔ ’’میں تو کہتا ہوں کہ معذوروں کو معذور ہی کہہ لیں، لیکن انہیں ان کے پورے حقوق تو دیں۔ زندگی گزارنے میں اگر معذوروں کے لیے آسانیاں پیدا نہیں کر سکتے، تو مشکلات بھی پیدا نہ کریں۔‘‘
ایک نابینا، ایک کے بازو نہیں، 12ہزار درخت لگا دیے
نابینا فوجی ’بیناؤں کے لیے مثال‘
پاکستان میں نابینا افراد کے لیے تعلیمی سہولیات کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں زاہد عبداللہ نے کہا، ’’نابینا بچوں کی تعلیم سے متعلق بہت سے مسائل ہیں۔ خاص کر بچیوں کے لیے۔ اگر وہ پڑھنا چاہیں اور ان کے اہل خانہ ان کی بڑی حوصلہ افزائی بھی کریں، تو بھی پاکستان میں معذوروں سے متعلق روایتی طور پر کھوکھلے طرز گفتگو میں واضح تبدیلی کی اشد ضرورت ہے۔ حکومت نے اسپیشل ایجوکیشن کے لیے کچھ اسکول بنائے ہیں۔ تاہم میرے خیال میں ایسے بچوں کے لیے الگ اسکول نہیں ہونے چاہیئں۔ انہیں عام اسکولوں میں ہی پڑھنا چاہیے، جہاں دوسرے بچے پڑھتے ہیں، تاکہ ایسے افراد معاشرے کے مرکزی دھارے میں رہتے ہوئے فعال شہری بن سکیں۔‘‘
جب کوئی شہری جو خود نابینا ہو، اپنے معاشرے کے نابیناؤں کے علاوہ بیناؤں کے لیے بھی اتنی زیادہ جدوجہد کرتا ہو، تو وہ کس طرح کے معاشرے کا خواہش مند ہوتا ہے؟ زاہد عبداللہ کا جواب بڑا واضح تھا، ’’ایک ایسا پاکستان، جہاں وہ لب و لہجہ بہتر ہو جس لب و لہجے میں لوگ دوسروں کے بارے میں بات کرتے ہیں، جہاں شخصی آزادی ہو، حقوق مساوی ہوں اور کوئی کسی کو اس کے رنگ و نسل، مذہب اور فرقے یا ایسی کسی دوسری بنیاد پر نہ پرکھے۔‘‘