بے نظیر بھٹو کو بچانا ممکن تھا، اقوام متحدہ کی رپورٹ
16 اپریل 2010پینسٹھ صفحات پر مشتمل رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مناسب سیکیورٹی کے ساتھ بے نظیر بھٹو کی ہلاکت کو روکنا ممکن تھا لیکن ایسا نہیں کیاگیا۔ رپورٹ میں واضح کیا گیا کہ اُن کو دی جانے والی دھمکیوں کے تناظر میں غیر معمولی سیکیورٹی کی فراہمی حکومت کی ذمہ داری تھی۔
رپورٹ میں واضح کیا گیا کہ بھٹو کے قتل کی دانستہ نامناسب تفتیش میں اُس وقت کی پولیس اور دوسرے پاکستانی حکام ملوث ہیں۔ اِس کے علاوہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تفتیشی عمل کے دوران اقوام متحدہ کے اہلکاروں کو بھی پاکستانی حکومتی اہلکاروں سمیت خفیہ اداروں کے عدم تعاون کا سامنا رہا اور اِس باعث بعض حقائق تک رسائی ممکن نہیں ہو سکی۔ اقوام متحدہ کے تفتیش کاروں نے اپنی رپورٹ میں اُن کے قتل کے محرکات اور وجوہات کو بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔
کمیشن نے اپنی رپورٹ میں بیان کیا کہ اُن کے سامنے اعلیٰ پاکستانی حکام نے فوج اور خفیہ معلومات اور اہلکاروں تک رسائی کو جان بوجھ کر معمہ بنا دیا تھا جو تفتیش میں رکاوٹیں پیدا کرنے کے مترادف تھا۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ اُس وقت کے فوجی صدر جنرل پرویز مشرف، بے نظیر بھٹو کو قتل کئے جانے سے آگاہ تھے کیونکہ اُن کے علم میں بھٹو کو ہلاک کردینے والی دھمکیاں تھیں اور مشرف حکومت نے اِن دھمکیوں کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پولیس اپنی اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے میں ناکام رہی۔ اُن کو پلان کے مطابق 1371 افراد پر مشتمل سکیورٹی دستہ فراہم نہیں کیا گیا تھا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بے نظیر بھٹو کو مختلف جہادی حلقوں سے ہلاک کردیے جانے کی دھمکیاں موصول ہو رہی تھیں۔ اِس میں القاعدہ اور طالبان بھی شامل تھے۔ مقامی جہادیوں کے علاوہ حکومت وقت کی اسٹیبلشمنٹ کے عناصر بھی شامل تھے۔
رپورٹ میں پاکستانی حکام پر ذمہ داری عائد کی گئی ہے کہ وہ تفتیشی عمل کو سنجیدگی اور شفاف انداز میں آگے بڑھائے اور اُس میں واضح طور پر اُن افراد کی نشاندہی کی جائے جنہوں نے قتل کا حکم صادر کیا اور پھر وہ لوگ جنہوں نے اُس حکم پر عمل کیا۔ اِن افراد کو بااعتماد انکوائری کے ذریعے انصاف کے کٹہرے تک لایا جائے۔
ستائیس دسمبر سن 2007 کو بے نظیر بھٹو ایک عوامی انتخابی ریلی اور جلسے کے بعد تقریباً پندرہ سالہ خودکش بمبار کی کارروائی کے نتیجے میں ہلاک ہوئیں تھیں۔ اس قتل کی تفتیش بے نظیر بھٹو کے شوہر آصف علی زرداری کی درخواست پر مکمل کی گئی ہے۔
اقوام متحدہ کے تفتیش کاروں نے یہ رپورٹ سیکریٹری جنرل بان کی مون کو پیش کردی ہے۔ سیکریٹری جنرل نے رپورٹ کی ایک کاپی حکومت پاکستان کو فراہم کرنے کے لئے اقوام متحدہ میں تعینات پاکستانی مندوب عبداللہ حسین ہارون کو فراہم کر دی ہے۔
رپورٹ : عابد حسین
ادارت: ندیم گِل