’تارکین وطن کو لاؤ یا روزگار ملک سے باہر بھیجو‘
4 فروری 2015جرمن سیاستدانوں کو ان دنوں ایک اہم سوال کا سامنا ہے وہ یہ کہ یورپ کے اس سب سے طاقتور اقتصادی ملک میں آکر کام کرنے اور سکونت اختیار کرنے کے متمنی غیر ملکیوں کی بڑی تعداد کو کس طرح سنبھالا جائے۔
جرمنی میں سماجی اعداد و شمار پر نظر رکھنے والے سیاستدانوں اور ماہرین کا کہنا ہے کہ اس ملک کو ہُنر مند تارکین وطن کی ضرورت ہے اور جرمن اقتصادیات کا ان پر بڑا انحصار رہے گا۔ سوشل ڈیموکریٹک پارٹی ایس پی ڈی کے پارلیمانی دھڑے کے لیڈر تھوماس اوپرمن کا شمار بھی اسی سوچ کی حامل شخصیات میں ہوتا ہے۔ انہوں نے حال ہی میں اس سلسلے میں کینیڈا کی امیگریشن پالیسی کو اپنانے کی بات کی۔ ایک ہفتہ وار اخبار ’بلڈ ام زونٹاگ‘ کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے تھوماس اوپرمن کا کہنا تھا کہ کینیڈا میں ترک وطن کرنے والوں کے لیے جو ’پوائنٹ سسٹم‘ موجود ہے جرمنی کو اسی طرح کی کوئی اسکیم تیار کرنی چاہیے جس کی بنیاد پر تمام دنیا سے ہُنر مندوں کو جرمن روز گار کی منڈی میں لایا جا سکے۔ اُن کا مزید کہنا تھا کہ سالانہ بنیادوں پر یورپی یونین کے باہر کے تارکین وطن کو جرمنی لانے کی ضرورت پر پھر سے توجہ دی جانی چاہیے اور اس سلسلے کو دوبارہ شروع کیا جانا چاہیے۔ 28 رُکنی یورپی یونین کے باشندے ان ممالک میں آزادانہ نقل و حرکت کر سکتے ہیں اور اپنے لیے بہتر مواقع تلاش کر کے ان میں سے کسی بھی ملک کا رُخ کر سکتے ہیں۔
طلب پر مبنی نظام
سوشل ڈیموکریٹ سیاستدان تھوماس اوپرمن کے خیالات کو تاہم متفقہ منظوری نہیں ملی۔ قدامت پسند کرسچن سوشل یونین سی ایس یو کی پارلیمانی لیڈر گیرڈا ہازلفلڈ کہتی ہیں، ’’ہمیں تارکین وطن سے متعلق نئے ضوابط کی کوئی ضرورت نہیں‘‘۔ سی ایس یو اس امر پر مُصر ہے کہ موجودہ قوانین کافی ہیں اور نئے ضوابط محض بیوروکریسی میں اضافے کا سبب بنیں گے۔
برلن میں قائم انسٹیٹیوٹ فار پاپولیشن اینڈ ڈیویلپمنٹ کے ایک محقق اشٹیفن زیفرٹ کا بھی یہی کہنا ہے کہ جرمنی کو کینیڈا کی طرح پوائنٹس سسٹم کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ جرمنی نے یورپی یونین کے باہر سے آنے والے تارکین وطن کے قوانین کو سہل بناتے ہوئے ’بلیو کارڈ‘ کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ اس کے تحت یونیورسٹی کی ڈگری کے حامل تارکین وطن کو اُن کی فیلڈ کے مطابق کم ترین تنخواہ پر کوئی جاب آفر کی جاتی تھی۔
اشٹیفن زیفرٹ کا تاہم کہنا ہے کہ کسی بھی قانون میں بہتری کی گنجائش ہمیشہ ہوتی ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’جرمن زبان کا علم تارکین وطن کے انضمام کے عمل میں ایک اہم عنصر ہے‘‘۔ انہوں نے حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ وہ ممکنہ طور پر ایسے غیرملکیوں کے لیے انعام کے طور پر امیگریشن قوانین میں آسانی کرنے کی اسکیم چلائے جنہیں جرمن زبان کا علم ہو۔
ورکرز لاؤ یا روزگار باہر بھیجو
جرمنی کے شمالی صوبے لوور سیکسنی کے وزیر داخلہ بورس پسٹوریئس ایک قدم مزید آگے کی بات کرتے ہیں۔ سوشل ڈیمو کریٹ لیڈر کی تجویز سیاسی پناہ کے متلاشی ایسے افراد جن کا کیس مسترد ہو چُکا ہے اُن کے لیے بھی قانونی راستہ کھولنے کا سبب بن سکتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ سیاسی پناہ کے متلاشی ایسے افراد جو کوالیفائیڈ ہیں اور جن کے پاس کوئی ہُنر ہے، اُن کی درخواست پر غور کیا جانا چاہیے۔
اُدھر ماحول دوست گرین پارٹی کے ترجمان فولکر بک کا کہنا ہے کہ قدامت پسند سیاستدانوں کو جرمنی کی آبادی کی صورتحال سے چشم پوشی نہیں کرنی چاہیے۔ وہ کہتے ہیں، ’’یا تو ورکرز جرمنی آئیں یا پھر جرمنی سے روزگار دوسرے ملکوں کو منتقل کرنا ہوگا‘‘۔