1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تارکین وطن کے خلاف ’نفرت، توہین اور تشدد ناقابلِ قبول‘

امجد علی23 اگست 2015

جرمن وزیر داخلہ تھامس ڈے میزیئر نے تارکینِ وطن کے رہائشی مراکز پر حملوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ پناہ کے متلاشیوں کے خلاف نفرت، تشدد اور اُن کی توہین میں اضافے کے رجحانات جرمنی کے ’وقار کے منافی اور ناشائستہ‘ ہیں۔

https://p.dw.com/p/1GK94
Heidenau Ausschreitungen Krawalle
جرمن صوبے سیکسنی کے شہر ہائڈیناؤ میں دائیں بازو کے مظاہرین پناہ کے متلاشی افراد کے رہائشی مرکز کے خلاف احتجاج کے دوران پتھراؤ کرتے ہوئےتصویر: Getty Images/M. Rietschel

جرمن اخبار ’بِلڈ اَم زونٹاگ‘ سے باتیں کرتے ہوئے ڈے میزیئر نے کہا کہ ان حملوں میں ملوث افراد کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ اُن کا کہنا تھا:’’جس کسی نے بھی یہ کام کیا ہے، ریاست اُس کے ساتھ سختی سے نمٹے گی۔‘‘

Thomas De Maiziere
جرمن وزیر داخلہ تھامس ڈے میزیئرتصویر: picture-alliance/dpa/Annegret Hilse

ڈے میزیئر کے مطابق پناہ کے متلاشی کسی ایسے فرد کا بھی، جسے ایک روز بعد جبری طور پر اُس کے وطن واپس بھیجا جانا ہو، یہ حق بنتا ہے کہ اُس کے ساتھ موزوں اور منصفانہ برتاؤ کیا جائے اور اُسے امن کے ساتھ رہنے کا موقع دیا جائے۔

دریں اثناء جرمن صوبے سیکسنی کے شہر ہائڈیناؤ میں مجموعی طور پر چھ سو تارکینِ وطن کے لیے قائم کیے گئے ہنگامی رہائشی مرکز کے سامنے ہنگاموں اور پولیس کے ساتھ دائیں بازو کے انتہا پسندوں کے تصادم کا سلسلہ گزشتہ رات بھی جاری رہا، جس کے نتیجے میں پولیس کے دو سپاہی زخمی ہو گئے۔ یہ بات اتوار کو پولیس کی ایک ترجمان نے ڈریسڈن میں بتائی ہے تاہم اُنہوں نے ایسی کوئی تفصیلات نہیں بتائیں کہ آیا کچھ لوگوں کو گرفتار بھی کیا گیا ہے یا اُن کے خلاف مقدمات درج کیے گئے ہیں۔

جمعے اور ہفتے کی درمیانی شب کو بھی، جب تارکینِ وطن کا پہلا قافلہ بسوں میں ہائڈیناؤ پہنچا تھا، دائیں بازو کے عناصر نے ہنگامہ بپا کیا تھا۔ تب ابتدا میں مظاہرین کی تعداد ایک ہزار کے لگ بھگ تھی، جو بعد میں کم ہو کر چھ سو کے قریب رہ گئی۔ انہیں منتشر کرنے کے لیے پولیس کو کالی مرچوں کا اسپرے بھی استعمال کرنا پڑا۔ اس موقع پر ہونے والے تصادم میں پولیس کے اکتیس سپاہی زخمی ہو گئے تھے۔

ہفتہ بائیس اگست کو بھی ہنگاموں کا یہ سلسلہ جاری رہا۔ ایک طرف دائیں بازو کے تقریباً ایک سو مظاہرین تھے جبکہ دوسری جانب اُن کے خلاف مظاہرہ کرنے کے لیے بائیں بازو سے وابستگی رکھنے والے بھی کوئی ایک سو پچاس ارکان موجود تھے۔ گزشتہ رات دائیں بازو کے مظاہرین نے پولیس کے سپاہیوں کی جانب بیئر کی بوتلیں اور پٹاخے پھینکے اور دو سپاہیوں کو زخمی کر دیا۔

Katrin Göring-Eckardt
جرمن پارلیمان میں گرین پارٹی کے حزب کی قائد کاترین گوئرنگ ایکارٹتصویر: imago/R. Zensen

اسی دوران ان ہنگاموں کی وجہ سے سیکسنی کی صوبائی حکومت کے ساتھ ساتھ وفاقی حکومت کو بھی کڑی تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ جرمن پارلیمان میں اپوزیشن کی گرین پارٹی کے حزب کی قائد کاترین گوئرنگ ایکارٹ نے اتوار کو برلن میں اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جب دائیں بازو کا ایک فسادی گروپ مسلسل دو راتیں انسانوں کو دھمکانے میں کامیاب ہوا ہو تو پھر سمجھو کہ ریاست کی طاقت اور اختیار خطرے میں ہے۔

اُنہوں نے کہا کہ ہائڈیناؤ کے واقعات اسلام مخالف گروپ ’پیگیڈا کی جانب سیکسنی کی صوبائی حکومت کی رواداری پر مشتمل غلط پالیسی کا براہِ راست نتیجہ ہیں‘۔ اُن کا کہنا تھا کہ اس موقع پر جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی جانب سے ظاہر کیا جانے والا تذبذب اُن کے لیے ناقابلِ فہم ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں