تارکین وطن کے خلاف ’نفرت، توہین اور تشدد ناقابلِ قبول‘
23 اگست 2015جرمن اخبار ’بِلڈ اَم زونٹاگ‘ سے باتیں کرتے ہوئے ڈے میزیئر نے کہا کہ ان حملوں میں ملوث افراد کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ اُن کا کہنا تھا:’’جس کسی نے بھی یہ کام کیا ہے، ریاست اُس کے ساتھ سختی سے نمٹے گی۔‘‘
ڈے میزیئر کے مطابق پناہ کے متلاشی کسی ایسے فرد کا بھی، جسے ایک روز بعد جبری طور پر اُس کے وطن واپس بھیجا جانا ہو، یہ حق بنتا ہے کہ اُس کے ساتھ موزوں اور منصفانہ برتاؤ کیا جائے اور اُسے امن کے ساتھ رہنے کا موقع دیا جائے۔
دریں اثناء جرمن صوبے سیکسنی کے شہر ہائڈیناؤ میں مجموعی طور پر چھ سو تارکینِ وطن کے لیے قائم کیے گئے ہنگامی رہائشی مرکز کے سامنے ہنگاموں اور پولیس کے ساتھ دائیں بازو کے انتہا پسندوں کے تصادم کا سلسلہ گزشتہ رات بھی جاری رہا، جس کے نتیجے میں پولیس کے دو سپاہی زخمی ہو گئے۔ یہ بات اتوار کو پولیس کی ایک ترجمان نے ڈریسڈن میں بتائی ہے تاہم اُنہوں نے ایسی کوئی تفصیلات نہیں بتائیں کہ آیا کچھ لوگوں کو گرفتار بھی کیا گیا ہے یا اُن کے خلاف مقدمات درج کیے گئے ہیں۔
جمعے اور ہفتے کی درمیانی شب کو بھی، جب تارکینِ وطن کا پہلا قافلہ بسوں میں ہائڈیناؤ پہنچا تھا، دائیں بازو کے عناصر نے ہنگامہ بپا کیا تھا۔ تب ابتدا میں مظاہرین کی تعداد ایک ہزار کے لگ بھگ تھی، جو بعد میں کم ہو کر چھ سو کے قریب رہ گئی۔ انہیں منتشر کرنے کے لیے پولیس کو کالی مرچوں کا اسپرے بھی استعمال کرنا پڑا۔ اس موقع پر ہونے والے تصادم میں پولیس کے اکتیس سپاہی زخمی ہو گئے تھے۔
ہفتہ بائیس اگست کو بھی ہنگاموں کا یہ سلسلہ جاری رہا۔ ایک طرف دائیں بازو کے تقریباً ایک سو مظاہرین تھے جبکہ دوسری جانب اُن کے خلاف مظاہرہ کرنے کے لیے بائیں بازو سے وابستگی رکھنے والے بھی کوئی ایک سو پچاس ارکان موجود تھے۔ گزشتہ رات دائیں بازو کے مظاہرین نے پولیس کے سپاہیوں کی جانب بیئر کی بوتلیں اور پٹاخے پھینکے اور دو سپاہیوں کو زخمی کر دیا۔
اسی دوران ان ہنگاموں کی وجہ سے سیکسنی کی صوبائی حکومت کے ساتھ ساتھ وفاقی حکومت کو بھی کڑی تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ جرمن پارلیمان میں اپوزیشن کی گرین پارٹی کے حزب کی قائد کاترین گوئرنگ ایکارٹ نے اتوار کو برلن میں اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جب دائیں بازو کا ایک فسادی گروپ مسلسل دو راتیں انسانوں کو دھمکانے میں کامیاب ہوا ہو تو پھر سمجھو کہ ریاست کی طاقت اور اختیار خطرے میں ہے۔
اُنہوں نے کہا کہ ہائڈیناؤ کے واقعات اسلام مخالف گروپ ’پیگیڈا کی جانب سیکسنی کی صوبائی حکومت کی رواداری پر مشتمل غلط پالیسی کا براہِ راست نتیجہ ہیں‘۔ اُن کا کہنا تھا کہ اس موقع پر جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی جانب سے ظاہر کیا جانے والا تذبذب اُن کے لیے ناقابلِ فہم ہے۔