ترکی: مخالفین پر کنٹرول کے لیے نیا میڈیا قانون باعث تشویش
2 دسمبر 2022سن 2014 میں رجب طیب ایردوآن کے اقتدار میں آنے کے بعد سے صدر کی توہین کو جرم قرار دینے والے ایک متنازع قانون کے تحت اب تک لاکھوں افراد کو سزائیں دی جاچکی ہیں، جن میں ہائی اسکول میں پڑھنے والے طلبہ سے لے کر ایک سابق مس ترکی بھی شامل ہیں۔
اکتوبر میں پارلیمان کے ذریعہ منظور کردہ نئے قانون کے تحت مبینہ "فیک نیوز" قرار دی جانے والی کسی خبر کے لیے نامہ نگاروں اور سوشل میڈیا استعمال کرنے والوں کو تین برس تک قید کی سزا دی جا سکتی ہے۔
استنبول سے سرگرم ایک آزاد نیوز پورٹل dokuz8NEWS کے چیف ایڈیٹر گوخن بسیجی نے خبر رساں ایجنسی اے ایف پی سے بات چیت کرتے ہوئے کہا،" الزامات، تفتیش اور دھمکیاں ہماری روزمرہ زندگی کا معمول بن گئی ہیں۔"
"بہت زیادہ محتاط رہنا اور نشانہ نہ بننے کے لیے حتی الامکان کوشش کرنا آج ترکی میں، آزاد صحافیوں سمیت بیشتر صحافیوں کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔"
توہین آمیز جملوں پر ترک خواتین کے خلاف قانونی کارروائی
میڈیا قوانین کے ماہرین کا کہنا ہے کہ نیا قانون حکام کو انٹرنیٹ کو بند کر دینے، حکومت کی مبینہ بدعنوانیوں کے بارے میں جلا وطن ترک رہنما سادات پیکر کے خیالات کوعوام تک پہنچانے سے روکنے کی اجازت دیتا ہے۔
حکام کو وسیع تر اختیارات مل جائیں گے
اس کے علاوہ حکومت سوشل میڈیا تک رسائی کو محدود کرسکتی ہے، جیسا کہ استنبول میں 13 نومبرکو ہونے والے بم حملے کے بعد اس نے کیا تھا۔ اس حملے میں چھ افراد ہلاک ہوئے تھے اور ترک حکام نے اس کے لیے ممنوعہ تنظیم کردستان ورکرز پارٹی کو مورد الزام ٹھہرایا تھا۔
ترکی میں بیشتر اخبارات اور نیوز چینل حکومت کی اتحادی جماعتوں کی ملکیت ہیں اور وہ حکومت کے ہر موقف کی تائید کرتے ہیں۔ لیکن سوشل نیٹ ورک اور انٹرنیٹ پر مبنی میڈیا بڑی حد تک آزاد ہیں اور یہی اردوان کے لیے پریشانی کا سبب ہیں۔
استنبول دھماکے میں کم از کم چھ افراد ہلاک، درجنوں زخمی
اگلے برس ہونے والے انتخابات ایردوآن کے لیے کافی اہمیت کے حامل ہیں۔ ملک میں بڑھتی ہوئی افراط زر اور کرنسی کے بحران کے درمیان ان کی حکمراں جماعت کی مقبولیت ریکارڈ کم ترین سطح تک پہنچ گئی ہے۔
ڈیجیٹل حقوق کے امور کے ماہر یمن اکدینیزکا کہنا تھا کہ یہ قانون انتخابات سے قبل اپنے استعمال کے لحاظ سے "حکام کو وسیع تر اور بلا روک ٹوک اختیارات" دیتا ہے۔
ترکی میں سوشل میڈیا پر قدغنوں کا نیا قانون
انہوں نے کہا کہ "اس لیے اس میں کوئی حیرت نہیں کہ اس قانون کے تحت جس پہلے شخص کی تفتیش کی گئی وہ سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی کے رہنما ہیں۔"
اس نئے قانون کے تحت کمال قلیچدار اوغلو کو ترکی کی موجودہ صورت حال کے حوالے سے ٹوئٹر پر ایک بیان شائع کرنے کے لیے مورد الزام ٹھہرایا گیا۔ اوغلو اگلے برس ہونے والے انتخابات میں ممکنہ صدارتی امیدوار ہو سکتے ہیں۔
ایردوآن حکومت کا موقف
بسیجی کہتے ہیں کہ آزاد میڈیا کو خاموش کرانے کے لیے حکومت کے پاس پہلے سے ہی بہت سارے اختیارات موجود ہیں جن میں انسداد دہشت گردی سے لے کر توہین سے متعلق قوانین شامل ہیں۔
ایردوان نے تاہم نئے قانون کا دفاع کیا ہے۔ انہوں نے اسے فوری ضرورت قرار دیتے ہوئے سوشل میڈیا پر "بدنام کرنے کی مہم "کو "دہشت گردانہ حملے "کا سوشل نیٹ ورک قرار دیا۔
حکومت کا مزید کہنا ہے کہ یہ قانون غلط معلومات کا مقابلہ کرنے کے لیے ہے اور اس نے ایک ہفتہ وار"ڈس انفارمیشن بلیٹن" شائع کرنا شروع بھی کر دیا ہے۔
ہیومن رائٹس واچ کی ایما سنکلیئر ویب کا کہنا ہے کہ "حکومت سوشل میڈیا پر بے پناہ کنٹرول حاصل کرنے کے لیے خود کو مزید اختیارات سے لیس کررہی ہے۔" انہوں نے کہا کہ اس قانون سے ٹیکنالوجی کمپنیوں کے لیے بھی کافی مشکلات کھڑی ہوجائیں گی۔ انہیں یا تو حکومت کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے مواد کو ہٹانا پڑے گا یا پھر بھاری جرمانہ ادا کرنے پڑے گا۔
اس قانون پر پارلیمان میں بحث کے دوران اس کے خلاف ترک صحافیوں نے مظاہرے بھی کیے تھے۔
ترکی جرنلسٹس ایسوسی ایشن کے سربراہ گوخان درمس کا کہنا تھا،"یہ قانون اظہار رائے کی بچی کھچی آزادی کو بھی تباہ کردے گا۔"
ج ا/ ص ز(اے ایف پی)