تشدد کی شکار افغان خواتین کے لیے پناہ گاہیں: حکومت کنٹرول کی خواہشمند
14 فروری 2011کابل میں کرزئی حکومت ایک ایسے مسودہء قانون کی تیاری پر غور کر رہی ہے، جسے خواتین کے حفاظتی مراکز سے متعلق قانون کا نام دیا گیا ہے اور جس کے تحت حکومت کو ملک میں موجود خواتین کی ایسی عارضی رہائش گاہوں کا انتظامی کنٹرول بھی حاصل ہو جائے گا، جو اب تک مختلف غیر سرکاری تنظیموں اور اقوام متحدہ کے زیر انتظام کام کر رہی ہیں۔
اس بارے میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی بین الاقوامی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے اتوار کو نیو یارک میں جاری کردہ اپنے ایک تفصیلی بیان میں کہا کہ جنگ سے تباہ حال افغانستان میں اب تک ایسے جتنے بھی مراکز کام کر رہے ہیں، وہ اپنے ہاں آنے والی گھریلو تشدد کی شکار افغان خواتین اور نابالغ بچیوں کو ان کی سلامتی کی ضمانت دیتے ہوئے ان کی مدد کرتے ہیں۔
لیکن ہیومن رائٹس واچ کے مطابق کابل حکومت ایسے مراکز کا انتظام ایک نئے قانون کے تحت اپنے ہاتھ میں لے لینے کے جو ارادے بنا رہی ہے، وہ ایسی متاثرہ خواتین کی مدد کر سکنے کے عمل میں نئے مثبت امکانات کی بجائے اضافی رکاوٹوں اور مشکلات کا سبب بنیں گے۔
امریکہ میں قائم انسانی حقوق کی اس تنظیم کے مطابق افغانستان میں ہونا تو یہ چاہیے کہ کابل حکومت اس شعبے میں غیر حکومتی اداروں کی طویل اور بہت مؤثر ثابت ہونے والی کوششوں میں ان کی مدد کرے، نہ کہ گھریلو تشدد کی شکار خواتین کے لیے قائم ایسے سلامتی مراکز براہ راست حکومت کے کنٹرول میں چلے جائیں۔
کابل حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ اپنے گھروں سے بھاگ کر ایسے سینٹرز میں پناہ لینے والی افغان عورتوں کے لیے زیادہ مالی وسائل اور بہتر انتظامی سہولیات مہیا کرنا چاہتی ہے، اسی لیے اس بارے میں نئی قانون سازی کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔
لیکن صدر کرزئی کی حکومت کے ان بیانات کے برعکس ہیومن رائٹس واچ کا دعویٰ ہے کہ افغانستان میں ویمن شیلٹر ہومز کا انتظام حکومت کو منتقل کرنے کی کوششوں کے پیچھے اصل ایجنڈا کچھ اور ہے، جو بہت واضح ہے۔
HRW کے جاری کردہ بیان کے مطابق، ’افغان حکومت میں ایسے سخت گیر قدامت پسند عناصر کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے، جو خواتین کے لیے ایسی عارضی پناہ گاہوں کے بنیادی نظریے ہی کے خلاف ہیں۔ اس لیے کہ یہ مراکز ان خواتین اور بچیوں کو تحفظ فراہم کرتے ہیں، جنہیں ان کے شوہروں یا اہل خانہ کی طرف سے پرتشدد اور استحصالی رویوں کا سامنا ہوتا ہے۔ یہی مراکز چونکہ ایسی خواتین اور بچیوں کو خود مختاری، خود انحصاری اور اپنے فیصلے آپ کر سکنے کا موقع بھی فراہم کرتے ہیں، اس لیے وہی قدامت پسند قوتیں جو خواتین کے حقوق کی نفی کرتی ہیں، افغانستان میں اس مجوزہ لیکن بہت متنازعہ قانون سازی کی اصل محرک بھی ہیں۔‘
افغانستان میں وزراء کی کونسل نے اس بارے میں گزشتہ مہینے ملک میں خواتین کے لیے دارالامان کا کام دینے والے ایسے تمام مراکز کے منتظم اداروں کو ایک خط لکھا تھا، جس میں انہیں ہدایت کی گئی تھی کہ وہ اگلے 45 دنوں میں ایسے سبھی مراکز کا کنٹرول خواتین سے متعلق امور کی افغان وزارت کو منتقل کر دیں۔
رپورٹ: مقبول ملک
ادارت: عاطف بلوچ