تھائی لینڈ میں امن و امان کی ذمہ داری فوج کو سونپ دی گئی
17 اپریل 2010ابھیشیت ویجاجیوا یقینی طور پر بینکاک میں معزول وزیر اعظم تھاکشن شناوترا کے ہزاروں حامیوں کے مسلسل مظاہروں سے پریشان دکھائی دیتے ہیں۔ ان مظاہروں نے بینکاک کے اندر اقتصادی سرگرمیوں کو پابند کر کے رکھ دیا ہے۔ ملکی معیشت کو مشکل حالات کا سامنا ہے۔ اس تناظر میں وزیر اعظم نے امن و سلامتی اور سیکیورٹی کی ذمہ داری فوج کے سربراہ جنرل Anupong Paojinda کے سپرد کردی ہے، جس کے بعد نائب وزیر اعظم Suthep Thaugsuban کے پاس یہ ذمہ داری نہیں رہی۔
وزیر اعظم نے تازہ تبدیلی کے حوالے سے کہا کہ بات چیت کی ناکام کوششوں کے بعد ہی سیکیورٹی ڈھانچے پر نظرثانی کی ضرورت محسوس کی گئی۔ یہ امر بھی اہم ہے کہ ایک ہفتہ قبل فوج کے سربراہ نے حکومت کو ملکی بحران کے حل کے لئے پارلیمنٹ تحلیل کرنے کا مشورہ دیا تھا۔
ماہرین تھائی وزیر اعظم کے اس فیصلے کو خاصی اہمیت دے رہے ہیں۔ اُن کے خیال میں فوج کے سربراہ کو سیکیورٹی عمل میں شامل کر کے وزیر اعظم پارلیمنٹ کی تحلیل کو مؤخر کرنے کے لئے مزید وقت حاصل کر سکتے ہیں۔ امکان ہے کہ یہ فیصلہ ریڈ شرٹس مظاہرین کے لیڈر نتاووت سائیکووا کے اُس بیان کی روشنی میں ہو سکتا ہے، جس میں ان کا کہنا تھا کہ راچاپرسانگ علاقے کو حکومت کے خاتمے کے لئے آخری معرکےکا مقام بنایا گیا ہے۔ یہ مقام بینکاک کے مالیاتی مرکز سے تھوڑے ہی فاصلے پر ہے۔ راچاپرسانگ علاقے میں ریڈ شرٹس مظاہرین گزشتہ تقریبا دو ہفتے سے قبضہ جمائے بیٹھے ہیں۔ سائیکووا نے حکومت کے ساتھ مزید مذاکرات کے امکانات ختم ہونے کا عندیہ دیا تھا۔ نئے سال کی تین روزہ تقریبات سے قبل مظاہرین نےحکومت کو واضح پیغام پہنچایا کہ اب وہ اُس کے خاتمے تک اسی مقام پر ڈیرے ڈالے رکھیں گے۔ گزشتہ روز مظاہرین کے لیڈر کو حراست میں لینے کی پولیس کی کوشش ناکام ہو گئی تھی۔ اب تک ریڈ شرٹس مظاہرین کے ساتھ سیکیورٹی فورسز کی کارروائی میں چوبیس افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہو چکے ہیں۔
دوسری جانب فوج نے اعلان کیا ہے کہ وہ دارالحکومت بینکاک کو مظاہرین سے خالی کروانے کے منصوبے پر کام کر رہی ہے۔ فوج کی جانب سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ بینکاک کے وہ علاقے جن پر مظاہرین قبضہ جمائے بیٹھے ہیں اُن کو واگزار کروانا ضروری ہے اور فوج اس کی کوشش کرے گی۔ فوج کے ترجمان Sunsern Kaewkumnerd کے مطابق مظاہرین کا رویہ ملکی اقتصادیات اور ترقی کے منافی ہے۔
رپورٹ: عابد حسین
ادارت: ندیم گِل