تھر میں کان کنی کا منصوبہ تنازعات کی زد میں
27 فروری 2017کئی برسوں تک پاکستانی حکومت نے صحرائے تھر میں واقع کوئلے کے وسیع تر ذخائر کو استعمال میں لانے کی کوشش نہ کی۔ اسلام آباد حکومت اس مقام پر کان کنی نہیں کر رہی تھی، اس لیے یہ موقف اختیار کیا گیا کہ پاکستان کو ماحول دوست ٹیکنالوجی اور پائیدار ترقی کے لیے ’بین الاقوامی کلائمیٹ فنانس‘ سے مالی مدد فراہم کی جائے۔
تاہم ملک میں توانائی کے شدید ہوتے ہوئے بحران کے سبب بالآخر تھر میں کان کنی شروع کر دی گئی۔ اس مقصد کے لیے حکومت سندھ نے متعدد کمپنیوں کے ساتھ مل کر ایک منصوبہ شروع کیا ہے، جس کا مقصد بجلی کی ملکی پیداوار میں اضافہ ہے۔
’سن 2018 تک بجلی کی لوڈ شیڈنگ ختم کر دی جائے گی‘
جنوبی پاکستان میں خشک سالی، بچوں کی ہلاکتیں اور حقائق
کیا پاکستانی ٹیکسٹائل انڈسڑی دوبارہ کھڑی ہو پائے گی؟
پاکستان کا شمار ایسے ممالک میں ہوتا ہے، جو ماحولیاتی آلودگی کا باعث بننے والی سبز مکانی گیسوں کا کم اخراج کرتے ہیں۔ تاہم ماحولیاتی آلودگی کے خاتمے کی خاطر طے پانے والے عالمی پیرس معاہدے کے تناظر میں اسلام آباد حکومت نے اعتراف کیا ہے کہ سن دو ہزار تیس تک پاکستان سے ایسی ضرر رساں گیسوں کے اخراج کی شرح میں چار گنا اضافہ ہو جائے گا۔
سندھ اینگرو کول پاورجن مائننگ کمپنی (SECMC) کے سربراہ شمس الدین شیخ نے تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ کان کنی پاکستان میں ایک بڑی صنعت کا درجہ حاصل کرنے والی ہے۔ یہ کمپنی سندھ حکومت کے ساتھ مل کر تھر میں کان کنی کے شعبے میں کام کر رہی ہے۔
شمس الدین شیخ نے اعتراف کیا کہ کوئلے سے توانائی کا حصول اگرچہ ماحولیاتی آلودگی کا باعث بنتا ہے تاہم پاکستان کو بجلی کی ضرورت ہے۔ شمس الدین شیخ کے بقول توانائی کے اسی بحران کی وجہ سے پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار متاثر ہو رہی ہے۔
تھر میں چھ سو ساٹھ میگا واٹ کا ایک کول پلانٹ بھی تیار کیا جا رہا ہے۔ اس کمپنی کی کوشش ہے کہ سن دو ہزار بائیس تک اس کی صلاحیت کو بڑھا کر تین ہزار تین سو تیس میگا واٹ کر دیا جائے۔ اس مقصد کی خاطر سندھ حکومت بھی تعاون کر رہی ہے۔ صوبائی حکومت نے اس پراجیکٹ کی کامیابی کی خاطر نئی سڑکیں تعمیر کی ہیں جبکہ ایک ایئر پورٹ بھی بنا دیا ہے۔
پاکستانی حکومت نے عہد کر رکھا ہے کہ سن دو ہزار اٹھارہ میں ہونے والے آئندہ عام انتخابات سے قبل ملک میں توانائی کا بحران حل کر لیا جائے گا۔ اس مقصد کے لیے نئے ڈیم، کوئلے سے چلنے والے پاور پلانٹ اور متبادل توانائی کے متعدد منصوبہ جات بھی شروع کیے گئے ہیں۔
مقامی آبادی کے تحفظات
تھر کی مقامی آبادی البتہ کان کنی کے اس منصوبے کے خلاف گزشتہ تین ماہ سے سراپا احتجاج ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اس پراجیکٹ سے اس مقام پر زیر زمین پانی آلودہ ہو جائے گا اور مقامی باشندوں اور ان کے آبائی علاقے کو بھی دیگر ماحولیاتی مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔
ان مظاہروں میں شامل پدما بائی نامی ایک خاتون نے بتایا، ’’یہ کمپنی کانوں سے خارج ہونے والے آلودہ پانی کو اس مقام پر ذخیرہ کرے گی، جس کی وجہ سے ہمارے ٹٰیوب ویلوں کا میٹھا پانی قابل استعمال نہیں رہے گا۔ اینگرو ہمیں رقم دینے کے لیے رضا مند ہے لیکن ہمیں اس کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ ہمارا آبائی علاقہ ہے، ہم یہاں سے کہیں نہیں جائیں گے۔‘‘
کانوں سے خارج ہونے والے آلودہ پانی کو گورانو کے مقام پر جہاں ذخیرہ کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے، وہیں قریب ہی رہنے والے ایک رہائشی لیلا رام کا کہنا ہے کہ کمپنی کو یہ ذخیرہ ایسے علاقے میں بنانا چاہیے، جہاں آبادی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ اس منصوبے کے خلاف قانونی کارروائی کریں گے، چاہے اس مقصد کے لیے انہیں سپریم کورٹ ہی کیوں نہ جانا پڑے۔
کمپنی کا کہنا ہے کہ تھر میں گورانو ڈیم کے قریبی علاقوں میں رہنے والی مقامی آبادی کو ایک نئے علاقے میں منتقل کیا جائے گا۔ اس مقصد کے لیے ایک نیا بلڈنگ ہاؤسنگ پراجیکٹ بھی شروع کیا گیا ہے، جہاں مکانات کی تعمیر کے ساتھ ساتھ اسکول اور ہسپتال کی تعمیر بھی جاری ہے۔ اینگرو کے میڈیا مینیجر محسن ببر کے مطابق ایسے مقامی افراد جو اس پراجیکٹ کی وجہ سے متاثر ہوں گے، انہیں بہترین سہولیات فراہم کی جائیں گی۔ دوسری طرف SECMC کے سربراہ شمس الدین شیخ کہتے ہیں کہ اگر مقامی آبادی خوش نہیں ہے، تو یہ منصوبہ کارآمد ثابت نہیں ہو گا۔