جنوبی پاکستان میں خشک سالی، بچوں کی ہلاکتیں اور حقائق
1 فروری 2016غیر سرکاری تنظیم ’پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیبر ایجوکیشن اینڈ ریسرچ‘ (پائیلر) نے مطالبہ کیا ہے کہ جنوبی پاکستان میں خشک سالی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مسائل کے حل اور نوزائیدہ بچوں کی ہلاکتوں کو روکنے کے لیے زیادہ اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ اس تنظیم سے وابستہ شجاع قریشی نے ڈی پی اے کو بتایا ہے کہ صوبہ سندھ میں جنوری سے اب تک ایک سو سے زائد بچے لقمہ اجل بن چکے ہیں، ’’ہمیں اس مسئلے کے حل کے لیے کوئی منصوبہ نظر نہیں آ رہا ہے۔‘‘
شجاع قریشی نے کہا کہ ان کی تنظیم نے بائیس جنوری کو سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کرتے ہوئے مطالبہ کیا تھا کہ ان کے ادارے کی طرف سے 2014ء میں دائر کی گئی اس درخواست پر سماعت شروع کی جائے، جس میں بچوں کی ہلاکتوں کے بارے میں حقائق جاننے پر زور دیا گیا تھا۔
بظاہر خشک سالی کی اس لہر کے نتیجے میں صوبہ سندھ کے صحرائی ضلع تھرپارکر میں بچوں کی اموات کی وجہ کم خوراکی اور ادویات کی قلت ہے۔ شجاع قریشی کہتے ہیں کہ سن 2014 میں بھی اس ضلع میں کم ازکم ڈھائی سو بچے انہی مسائل کے باعث ہلاک ہوئے تھے۔ اس مسئلے کے حوالے سے حقائق جاننے کی کوششوں میں ماضی کی صوبائی حکومت نے بھی مزاحمت دکھائی تھی۔ کئی ساسیتدان اس بحران کو سیاسی مقاصد کے لیے بھی استعمال کرتے رہے ہیں۔
دوسری طرف مقامی حکام کا کہنا ہے کہ میڈیا اس مسئلے کو بڑھا چڑھا کر پیش کر رہا ہے۔ تھرپارکر کے ضلعی انتظامی افسر اللہ جوریہ نے ڈی پی اے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جنوری سے اب تک چالیس نوزائیدہ بچے ہلاک ہوئے ہیں۔ یہ امر اہم ہے کہ ان ہلاکتوں کی درست تعداد کے بارے میں آزادانہ اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں۔
پاکستان میں نوائندہ بچوں کی ہلاکتوں کی شرح بہت زیادہ ہے۔ 1.5 ملین آبادی والے تھرپارکر کے لوگ عمومی طور پر انسانی حقوق کے اداروں سے متفق ہیں۔ ان کا بھی کہنا ہے کہ مسائل بڑے ہیں جبکہ حکومت انہیں نظر انداز کر رہی ہے۔ تھرپارکر کے رہائشی یوسف جرار نے ڈی پی اے کو بتایا کہ دو ہفتے قبل ہی اس کا چار ماہ کا بیٹا انتقال کر گیا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان کے گاؤں میں انہی ہفتوں کے دوران کئی گھرانوں نے اپنے نوازئیدہ بچوں کی تدفین کی ہے۔
تھرپارکر میں خشک سالی کے نتیجے میں وہاں کے مقامی لوگوں کے روزگار کے مواقع بھی بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔ پالتو جانوروں کے ہلاک ہونے کی وجہ سے بھی انہیں مسائل کا سامنا ہے۔ اس کے علاوہ مناسب خوراک اور غربت نے بھی اس علاقے کو جکڑ رکھا ہے۔
حکومت کا کہنا ہے کہ برے حالات کی تصویر کشی کر کے دراصل اس کو عدم استحکام کا شکار بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اللہ جوریہ نے ایسے الزامات کو مسترد کر دیا ہے کہ حکومت اس بحران کے نتیجے میں مناسب ردعمل ظاہر کرنے میں ناکام رہی ہے۔ انہوں نے اصرار کیا کہ مقامی حکومت کے پاس نہ تو خوراک کی کمی ہے اور نہ ہی ادویات کی۔