تیل کی قیمتوں میں کمی کا دعوی مضحکہ خیز قرار
1 اکتوبر 2021پی ٹی آئی حکومت کے وزیر خزانہ شوکت ترین سمیت کئی وزراء اس بات کا دعویٰ کر چکے ہیں کہ پاکستان میں تیل اور دوسری اشیاء کی قیمتیں خطے میں سب سے کم ہے۔ حکومتی وزراء پر تنقید نہ صرف اپوزیشن کی طرف سے آ رہی ہے بلکہ خود وزیراعظم کی اقتصادی کونسل کے کچھ ارکان بھی حکومت کی اس پالیسی سے نالاں ہے۔
پاکستان میں غربت و افلاس مزید اضافے کا خدشہ
روپے کی بے قدری
وزیراعظم کی اقتصادی کونسل کے رکن ڈاکٹر اشفاق حسن خان کا کہنا ہے کہ موجودہ مہنگائی کی لہر اسٹیٹ بینک کی پالیسی کی وجہ سے آئی ہیں اور اگر مہنگائی کے طوفان کو روکنا ہے تو گورنر اسٹیٹ بینک کو برخاست کیا جائے یا انہیں خود استعفیٰ دے دینا چاہیے۔
انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "اسٹیٹ بینک کے گورنر نے اپنے آقاؤں کو خوش کرنے کے لیے روپے کی قدر میں کمی کی جس کی وجہ سے مہنگائی کا یہ طوفان آیا ہے کیونکہ پاکستان کی صنعت کو خام مال درآمد کرنا پڑتا ہے۔ جب آپ روپے کی قدر میں کمی کرتے ہیں تو خام مال مہنگا ہو جاتا ہے۔ جس سے پیداواری لاگت میں اضافہ ہو جاتا ہے اور مہنگائی کا ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔‘‘
اشفاق حسن خان نے روپے کی قدر میں کمی کے حوالے سے کہا "اگر آپ اپنے ملک کی کرنسی کی بے قدری کرتے رہیں گے تو نتیجتاً ہر چیز مہنگی ہوتی رہے گی کیونکہ وہ صنعتیں جو ملکی ضروریات اور ایکسپورٹ کے لیے پیدا کرتی ہے، دونوں کے لیے خام مال بیرونی دنیا سے آتا ہے۔ ہمیں 60 فیصد خام مال درآمد کرنا پڑتا ہے تو جب ڈالر کی قیمت بڑھتی ہے تو خام مال کی قیمت بھی بڑھ جاتی ہے، جس سے پیداواری لاگت بڑھتی ہے اور اشیا مہنگی ہوجاتی ہیں۔‘‘
گزشتہ نو ماہ میں پٹرول کی قیمت میں سب سے زیادہ اضافہ
ان کا مزید کہنا تھا کہ حکومتی وزراء فی کس آمدنی کو نظر انداز کرکے یہ دعوے کر رہے ہیں کہ ہمارے ہاں تیل کی قیمت کم ہے۔ "ہماری فی کس آمدنی پندرہ سو ڈالر جبکہ امریکہ میں فی کس آمدنی پچاس ہزار سے ساٹھ ہزار ڈالر ہے۔ اسی طرح فی کس آمدنی بھارت اور بنگلہ دیش کی بھی ہم سے زیادہ ہے۔ ہمارے وزراء مضحکہ خیز دعوی کرتے ہوئے فی کس آمدنی کے پہلو کو بالکل نظر انداز کر دیتے ہیں۔
قوت خرید کا پہلو
اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار عامر حسین کا کہنا ہے کہ حکومتی دعوے انتہائی مضحکہ خیز ہے کیونکہ حکومت نے نہ صرف یہ کہ فی کس آمدنی کے پہلو کو نظر انداز کیا بلکہ اس نے قوت خرید کو بھی یکسر نظر انداز کیا۔
بجلی اور پٹرولیم مصنوعات مہنگی، عوام سراپا احتجاج
انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "بنگلہ دیش کے عوام کی قوت خرید ہم سے تقریبا 45 فیصد زیادہ ہے۔ بھارت کی اس سے بھی زیادہ ہے۔ مثال کے طور پر اگر پاکستان میں ایک سو ستر روپے کا ایک لیٹر پیٹرول مل رہا ہے اگر بھارت میں یہ دو سو روپے فی لیٹر بھی ہو تو تب بھی وہ سستا ہو گا۔ تو یہ دعویٰ کرنا کہ تیل کی قیمت پورے خطے میں پاکستان میں سب سے کم ہے بہت مضحکہ خیز ہے۔‘‘
آئی ایم ایف ذمہ دار
معروف ماہرِ اقتصادیات ڈاکٹر شاہدہ وزارت کا کہنا ہے کہ مہنگائی کا یہ طوفان آئی ایم ایف کی پالیسیوں کی وجہ سے آیا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، " ہمارے ملک میں ساری سیاسی جماعتیں آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور دوسرے عالمی مالیاتی اداروں کو خوش کرنے کے لئے پالیسی بناتی ہیں، اس طرح کی پالیسیز پیپلز پارٹی نے بھی بنائی جب 2008 میں آئی ایم ایف کے پاس جانے کی ضرورت نہیں تھی لیکن زبردستی ہمیں آئی ایم ایف کے پاس لے جایا گیا اور ایسی پالیسی بنائی گئی جس سے معیشت کا جنازہ نکلا اور عام آدمی کے لیے مشکلات بڑھیں اور مہنگائی کا ایک طوفان آیا۔‘‘
پاکستان کا بھارتی پٹرولیم مصنوعات خریدنے کا مثبت اشارہ
ڈاکٹر شاہدہ وزارت کے بقول نون لیگ نے بھی تقریبا ایسی ہی پالیسیز اپنائیں، '' لیکن پی ٹی آئی کی حکومت نے تو حد کر دی ہے اور یہ بیرونی کمپنیوں کو خوش کرنے کے لئے ہر کام کرنے کے لئے تیار ہیں۔‘‘
غیر سرکاری بجلی پیدا کرنے والی کمپنیاں
ڈاکٹر شاہدہ وزارت کا کہنا ہے کہ غیر سرکاری بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں نے بھی پاکستان میں مہنگائی کے طوفان کو بڑھانے میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ " انیس سو نوے کی دہائی میں ان کمپنیوں کو پاکستان لایا گیا تھا اور اس وقت جب انہوں نے کوئی سرمایہ کاری نہیں کی تھی ان کو 30 فیصد ریٹرنز کی پیشکش کی گئی تھی جو آزاد تجارت کے اصولوں کے بالکل خلاف ہے۔ مسلم لیگ نون اور دوسری جماعتوں نے بھی ان کمپنیوں سے مہنگی بجلی خریدی، جس کی وجہ سے مجموعی طور پر مہنگائی بڑھی۔ اگر ہمیں اس سے نجات حاصل کرنی ہے تو عالمی مالیاتی اداروں کے شکنجے سے نکلنا ہوگا۔‘‘