تین مذاہب کا پہلا ڈے کیئر سینٹر
14 جنوری 2020جرمنی میں چھوٹے بچوں کی نگہداشت کے لیے عام ڈے کیئر مراکز سیکولر بنیادوں پر ہوتے ہیں، یعنی ان میں اساتذہ کا تعلق بھی مختلف مذاہب سے ہو سکتا ہے اور بچے بھی مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے گھرانوں کے ہو سکتے ہیں۔ تاہم مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے اداروں کے ایسے ڈے کیئر مراکز بھی موجود ہیں، جو اپنی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے گھرانے کے بچوں کو اپنے ہاں جگہ دیتے ہیں۔ تاہم برلن میں قائم کیے جانے والے اس ڈے کیئر مرکز کی اچھوتی بات یہ ہے کہ اس میں تین مختلف مذاہب کے اشتراک سے ڈے کیئر مرکز قائم کیا جا رہا ہے، جس میں تینوں مذاہب ایک مرکز کے لیے سرمایہ مہیا کر رہے ہیں۔ یہ اچھوتا خیال ان خواتین نے چار برس قبل وضع کیا تھا، تاہم اب یہ حقیقت بننے جا رہا ہے۔
بچوں کے لیے ڈے کیئر سنٹر والی پاکستان کی پہلی اسمبلی
نوجوان خاندانوں کے لیے بہترین ممالک: شمالی یورپ سب سے آگے
ایمان اندریا رائیمان نے 25 برس قبل اسلام قبول کیا تھا اور تین مذاہب کے ڈے کیئر سینٹر کے خیال کو عملی جامہ پہنانے کا آغاز بھی انہوں ہی نے کیا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک دوسرے سے سوال پوچھنا اور جاننا نہایت اہم ہے۔
ایمان اندریا رائیمان اپنے تجربے کی بنیاد پر کہتی ہیں کہ اپنے مذہب سے باہر کسی دوسرے مذہب سے متعلق جاننا ایک نہایت غیرمعمولی عمل ہوتا ہے۔ وہ اس وقت مسلم اسپانسرز سے رابطہ کاری میں مصروف ہیں جب کہ خود برلن میں ایک مسلم ڈے کیئر سینٹر کی سربراہی بھی کر رہی ہیں۔
ایمان اندریا رائیمان کے مطابق چار برس قبل ربی گیز ایڈربرگ نے خیال ظاہر کیا کہ یہودی، مسیحی اور مسلمان بچوں کو ایک ہی جگہ پر ہونا چاہیے۔ ایڈربرگ برلن کے مرکز میں ایک سیناگوگ کی ذمہ دار ہیں۔ اینڈربرگ ایک پروٹیسٹنٹ مسیحی گھرانے میں پیدا ہوئی تھیں جب کہ تیس برس قبل انہوں نے یہودیت قبول کی۔ ان دونوں خواتین نے اس خیال کو مزید واضح کیا اور پھر کیتھرین جیرٹ جو برلن کے ایونگلیکل چرچ ایسوسی ایشن کے ڈے کیئر سے وابستہ تھیں، ان سے آن ملیں۔ ابتدا میں اس مرکز کے لیے برلن میں ایک جگہ تلاش کی گئی، مگر بات نہ بنی۔
بعد میں اس مرکز کو برلن کے فریڈیشن ہائن کے علاقے میں ایونگلیکل چرچ کی مہیا کردہ جگہ پر تعمیر کرنے پر اتفاق ہو گیا۔ ان خواتین کا کہنا ہے کہ اس مرکز کے قیام کے لیے تمام تر منصوبہ مرتب ہو چکا ہے اور اگر تمام چیزیں طے شدہ اوقات کار میں انجام پا جاتی ہیں، تو یہ مرکز سن 2021 سے تعمیر ہونا شروع ہو جائے گا۔
جرمنی کی وفاقی حکومت کے کمشنر برائے مذہبی آزادی مارکُس گرؤبیل کے مطابق، ''میں مذہبی منافرت کے رد کے لیے اس سے بہتر کچھ نہیں سوچ سکتا۔ یہاں ایک ہی چھت تلے مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے گھرانوں کے بچے ایک دوسرے کے ساتھ رہیں، ایک دوسرے کو دیکھیں، مگر اپنے اپنے گھروں میں اپنے اپنے مذہب سے جڑے بھی رہیں۔‘‘
اس مرکز کی تعمیر پر قریب پانچ ملین یورو کی لاگت آ رہی ہے، جس میں سے دس فیصد یہ تینوں خواتین اپنے اپنے مذاہب سے وابستہ ڈونرز سے حاصل کر رہی ہیں، جب کہ باقی سرمایہ برلن کی ریاست فراہم کر رہی ہے۔ اس عمارت میں چار منزلیں ہوں گی، جس میں تینوں مذاہب سے تعلق رکھنے والے پینتیس پینتیس بچوں کے لیے الگ الگ منزل ہو گی۔ جب کہ چوتھی منزل میں سب ساتھ ہوں گے۔ اس کے علاوہ تینوں ڈے کیئر منازل کے بچے کچن اور باغیچہ بھی مل کر استعمال کریں گے۔
ع ت، ا ب ا (کے این اے)