تیونس میں پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں
7 مئی 2011عرب دنیا میں حکومت مخالف مظاہروں کا آغاز تیونس سے ہوا تھا۔ ’’یاسمین انقلاب‘‘ کہلانے والے ان حکومت مخالف پرتشدد مظاہروں کے نتیجے میں تیونس پر 23 برسوں تک حکمرانی کرنے والے زین الدین بن علی کو ملک سے فرار ہونا پڑا تھا، جبکہ تیونس کے بعد مصر، لیبیا، یمن اور شام سمیت متعدد عرب ملکوں میں آمریت کے خاتمے، جمہوری اصلاحات اور آزادی کے حق میں لاکھوں افراد سڑکوں پر نکلے، جن کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔ مصر میں ایسے ہی مظاہروں کے باعث حسنی مبارک جیسے مطلق العنان رہنما کو عہدہ صدارت سے دستبردار ہونا پڑا۔
دارالحکومت تیونس کے مرکز میں جمعے کے روز جمع ہونے والے سینکڑوں افراد نے عبوری حکومت کے خلاف نعرے بازی کی اور حکومت سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا۔ یہ مظاہرین ’’عوام ایک نیا انقلاب چاہتے ہیں‘‘ کے نعرے بلند کر رہے تھے۔
اس سے قبل تیونس کے سابق وزیرداخلہ نے اپنے ایک بیان میں تشویش ظاہر کی تھی کہ آئندہ انتخابات میں اسلامی انتہاپسند ملک کی سیاسی صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اقتدار میں آ سکتے ہیں۔
جمعے کے روز ہونے والے اس بڑے عوامی اجتماع میں شریک مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے پولیس نے طاقت کا استعمال کیا۔ پولیس کے طرف سے مظاہرین پر آنسو گیس کے گولے برسائے گئے جبکہ لاٹھی چارج بھی کیا گیا۔ مظاہرین نے پولیس پر زبردست پتھراؤ کیا اور متعدد املاک کو نذر آتش کر دیا۔
تیونس کے محکمہ داخلہ کے مطابق جمعے کو پولیس اور مظاہرین کے درمیان ہونے والے جھڑپوں میں کم از کم چار پولیس اہلکار زخمی ہوئے۔ محکمہ داخلہ کے مطابق زخمی ہونے والے پولیس اہلکاروں میں سے ایک کی حالت تشویش ناک ہے۔ بیان میں کسی شہری کے زخمی ہونے کے حوالے سے کوئی اطلاع نہیں دی گئی ہے۔
واضح رہے کہ سابق صدر زین الدین بن علی کے ملک سے فرار کے بعد عبوری حکومت نے تیونس میں رواں برس جولائی میں عام انتخابات کا وعدہ کیا ہے۔ ان انتخابات کے نتیجے میں وجود میں آنے والی اسمبلی ملک میں نیا دستور مرتب کرے گی۔
رپورٹ : عاطف توقیر
ادارت : شامل شمس