تیونس کی نئی حکومت مشکلات میں
19 جنوری 2011قومی حکومت میں شامل چار وزراء نے اپنے استعفے پیش کردیے ہیں۔ دوسری جانب قائم مقام صدر فوادالمبزع اور وزیر اعظم محمد الغنوشی نے فرار ہوجانے والے صدر زین العابدین بن علی کی پارٹیDemocratic Constitutional Rally RCD سے علیحدگی اختیار کر لی ہے۔
بظاہر ان کا مقصد مجموعی صورتحال میں سابقہ حکومتی پارٹی کے حوالے سے پیدا شدہ تناؤ کو کم کرنا ہے۔ آر سی ڈی نے زین العابدین کو بھی پارٹی سے نکال دیا ہے۔
چار کلیدی وزارتوں پر سابقہ حکومت کے وزراء کے تسلسل نے اپوزیشن جماعتوں کو ناراض کیا ہے۔ عام لوگ اس کابینہ کو عوامی تحریک کے ساتھ زیادتی قرار دے رہے ہیں۔ بن علی حکومت کے آخری دنوں میں وزیر داخلہ احمد فریعا تھے اور اب وہ قومی حکومت میں بھی اسی مسند پر براجمان ہیں۔ اس کے علاوہ ٹریڈ یونین، طلبہ اور عوام میں بھی غم و غصہ محسوس کیا جارہا ہے۔
قومی حکومت میں شامل اپوزیشن پارٹیوں کے ایک وزیر مصطفیٰ بن جعفر نے الغنوشی اور فواد المبزع کی بن علی کی سیاسی جماعت سے علیحدگی کو ایک احسن قدم قرار دیا ہے۔ ایک دوسری جماعت UGTT نے اپنے تین وزراء کو کابینہ میں شامل ہونے سے روک دیا ہے۔ اسی یونین کے عابد البریکی نے صاف صاف انداز میں کہا ہے کہ بن علی حکومت کے وزراء کو ہر حال میں حکومت سے فارغ کرنا ہو گا کیونکہ یہ زین العابدین بن علی کی باقیات میں سے ہیں۔
عوامی سطح پر الغنوشی حکومت میں بن علی کے وزراء کی موجودگی کو انقلاب کی توہین قرار دیا جا رہا ہے۔ ایسے خدشات ہیں کہ الغنوشی کو بھی کہیں عوامی تحریک کے سامنے اپنے منصب سے سبکدوش نہ ہونا پڑ جائے۔ نئی قومی حکومت میں شامل اپوزیشن جمات التجدید پارٹی نے بھی اپنے وزیر احمد ابراہیم کو کابینہ میں شامل ہونے کی اجازت نہیں دی ہے۔
اس دوران تیونس کے ایک مقبول سیاستدان منصف المرزوقی بھی پیرس سے واپس تیونس پہنچ گئے ہیں اور انہوں نے بھی الغنوشی حکومت کو سابقہ حکومت کا تسلسل قرار دیتے ہوئے انقلاب جاری رکھنے کا عندیہ دیا ہے۔
تیونس میں اپوزیشن سیاستدان مغرب کے نئے رویے پر بھی تنقید کر رہے ہیں جس میں وہ موجودہ حکومت کو انسانی حقوق کے احترام کا مشورہ دے رہے ہیں۔ ان کے مطابق عرب دنیا کے تمام سخت گیر حکمرانوں کو ماضی میں مغرب اور امریکہ کی حمایت حاصل رہی ہے۔
رپورٹ: عابد حسین
ادارت: شادی خان سیف