جرمن اتحاد کی بیسویں سالگرہ کی مرکزی تقریب
4 اکتوبر 2010چار ماہ سے بھی کم عرصہ قبل جرمن صدر کے عہدے پر فائز ہونے والے کرسٹیان وولف نے اپنے خطاب میں سب سے زیادہ زور اس بات پر دیا کہ ماضی کی دو مختلف جرمن ریاستوں کا دو عشرے قبل عمل میں آنے والا اتحاد جرمن عوام کے لئے قومی سطح پر بڑے فخر کی بات ہے۔ لیکن ’’ساتھ ہی یہ بھی بہت ضروری ہے کہ جرمنی میں رہنے والے غیر ملکی تارکین وطن کے بہتر سماجی انضمام پر بھی پوری توجہ دی جائے۔‘‘
دوسری عالمی جنگ کے خاتمے پر جرمن ریاست کی دو مختلف ملکوں میں تقسیم کے کئی عشرے بعد مشرقی اور مغربی جرمنی کا اتحاد تین اکتوبر 1990 کو عمل میں آیا تھا۔ یورپی اور عالمی سیاست میں بڑی تاریخی پیش رفت قرار دی جانے والی یہ تبدیلیاں دیوار برلن کے خاتمے کے گیارہ ماہ سے بھی کم عرصے بعد ممکن ہو گئی تھیں۔
آج اتوار کو بریمن میں ایک بہت بڑے شہری میلے میں ہزاروں شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے جرمن صدر کرسٹیان وولف نے کہا کہ دوبارہ متحد ہو چکے جرمنی میں اب حب الوطنی کا ایک ایسا جذبہ پایا جا تا ہے، جو مغربی حصے کے پرانے وفاقی صوبوں کے ساتھ ساتھ مشرقی حصے کے نئے وفاقی صوبوں میں بھی بھر پور انداز میں دیکھنے میں آتا ہے۔
تاہم جرمن صدر نے یہ بھی کہا کہ ٹھیک دو عشرے قبل 1990 میں آج ہی کے دن دوبارہ اتحاد کے بعد سے اب تک جو کچھ حا صل کیا جا چکا ہے، وہ بہت خوشی کا باعث اور تسلی بخش تو ہے لیکن ابھی بھی بہت کچھ حاصل کیا جا نا باقی ہے۔
جرمنی میں غیر ملکی تارکین وطن کے سماجی انضمام سے متعلق مشکلات کے بارے میں ملک میں نظر آنے والی حالیہ بحث کے پس منظر میں کرسٹیان وولف نے کہا کہ جرمن معاشرے میں تارکین وطن کے بہتر انضمام پر خصوصی توجہ دی جانی چاہئے۔ انہوں نے کہا: ’’جر منی کبھی بھی یہ نہیں چاہے گا کہ ان تارکین وطن سے متعلق تعصب کو ہوا دی جائے یا انہیں معاشرے کے مرکزی دھارے سے دور رکھا جائے۔‘‘
جرمن صدر نے اپنے خطاب میں خاص طور پر سابقہ مشرقی جرمنی کے ان شہریوں کی ہمت اور حوصلے کو خراج تحسین پیش کیا، جن کی طرف سے پر امن انقلاب کا جذبہ اور اشتراکیت کی پابندیوں سے نجات کی خواہش ہی جرمن اتحاد کے عمل کا پہلا مرحلہ ثابت ہوئی تھی۔
اتحاد جرمنی کی سالانہ مرکزی تقریب اس سال بریمن میں اس لئے ہوئی کہ وفاقی جرمن پارلیمان کے صوبوں کے نمائندہ ایوان بالا کی صدارت اس وقت شمالی جرمنی کی اسی شہری ریاست کے پاس ہے۔
رپورٹ: مقبول ملک
ادارت: عصمت جبیں