جرمن بولیے، جرمنی میں رہیے
3 جولائی 2015وفاقی جرمن پارلیمان نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ مقامی انتظامیہ ایسے بالغ تارکین وطن کو جرمنی میں رہائش کا اجازت نامہ دینے کی مجاز ہو گی، جو آٹھ برس سے جرمنی میں رہ رہے ہیں اور کسی نہ کسی آمدنی کے ذریعے خود کفالت کے اہل ہیں، لیکن شرط یہ ہے کہ انہیں جرمن زبان پر عبور ہونا چاہیے۔
جرمنی کے ریزیڈنسی قانون کے پیرا گراف 60 کے تحت جرمن حکام کسی ایسے غیر ملکی کو جسے ملک بدر کیا جا سکتا ہے، ایک ایسی باقاعدہ دستاویز دے سکتے ہیں جس پر یہ درج ہو گا کہ اُس کی ملک بدری کو عارضی طور پر معطل کر دیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر کسی ایسے کیس میں، جس میں رہائش کا حق حاصل کرنے کی قانونی اپیل زیر سماعت ہو۔ ان قوانین میں ترامیم کے بعد 18 سال سے کم عمر کے بچوں کے والدین بھی رہائشی پرمٹ کے لیے درخواست دے سکتے ہیں، بشرطیکہ انہیں جرمنی میں رہتے ہوئے چھ سال کا عرصہ گزر چُکا ہو۔ اس کے علاوہ چار سال سے جرمنی میں رہائش پذیر غیر ملکی ٹین ایجرز کو بھی رہائشی پرمٹ کی درخواست دینے کا حق حاصل ہو گا۔
میرکل کی مخلوط حکومت میں میں شامل سیاسی جماعتوں نے اکثریت سے قانون میں ان ترامیم پر اتفاق کیا ہے۔ مخلوط حکومت میں شامل حکمران پارٹی کرسچین ڈیمو کریٹک یونین سی ڈی یو اور سوشل ڈیموکریٹک پارٹی ایس پی ڈی نے مختلف قوانین کو ایک ہی قانونی مسودے میں شامل کر دیا ہے۔ مثال کے طور پر جرمنی میں رہنے والے غیر ملکیوں کو اپنی فیملی جرمنی بُلانے سے متعلق قوانین نرم کر دیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ ایس پی ڈی نے مختلف آجرین یا کمپنیوں کی انجمنوں کے ساتھ ایک عرصے سے کھینچا تانی کا سبب بنے ہوئے اُن قوانین کو منوا لیا ہے، جن کے تحت مختلف کمپنیوں میں تربیتی بنیادوں پر کام کرنے والوں کی قانونی صورتحال میں مستقبل میں بہتری آئے گی۔ ایس پی ڈی کے اس اقدام کو گرین پارٹی اور بائیں بازو کی جماعتوں کی طرف سے سراہا گیا ہے۔
نئے قوانین پر تنقید
دوسری جانب اپوزیشن گرین پارٹی اور بائیں بازو کی جماعتوں سمیت فرینکفرٹ میں قائم پناہ گزینوں کے حقوق کے لیے سرگرم ’پرو ازائلم‘ یا سیاسی پناہ کے حق میں سرگرم ادارے نے غیر ملکیوں کی ملک بدری، انہیں واپس بھیجنے کے لیے حراست میں لینے اور ان قوانین میں مزید سختی سے متعلق نئے فیصلوں پر کڑی تنقید کی ہے۔ سوشل ڈیمو کریٹک پارٹی بھی ان قوانین پر مزید غور و خوض کرنا چاہتی ہے۔ گرین پارٹی نے ان تارکین وطن کو گرفتار کرنے اور انہیں ملک بدر کرنے کو بنیادی انسانی حقوق کی پامالی قرار دیا ہے جبکہ لیفٹ پارٹی نے اسے شرمناک کہا ہے۔
قبل از ملک بدری حراست
جرمن پارلیمان میں قانونی ترامیم کے تحت آئندہ ایسے افراد کو، جو مبینہ طور پر ملک بدری سے بچنے کی کوشش کریں گے، چار روز تک کے لیے حراست میں رکھا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر ایئرپورٹ کے ٹرانزٹ زون میں ہی انہیں حراست میں لیا جا سکتا ہے۔
دوبارہ جرمنی میں داخل ہونے کی کوشش کرنے والے تارکین وطن کو ایک محدود مدت کے لیے اخراج پر پابندی کا سامنا ہو سکتا ہے۔ اس کا مقصد پناہ کے متلاشی افراد کو مزید درخواستیں درج کرنے سے روکنا ہے۔
مستقبل میں جرمنی سے ملک بدر کرنے یا قیام کی اجازت دینے کا دار و مدار دو چیزوں پر ہو گا: ایک یہ کہ کیا کوئی غیر ملکی کسی جرم کا مرتکب ہوا ہے اور دوسرے یہ کہ اس کی اور اس کی فیملی کے حالات کیسے ہیں؟
’پرو ازائلم‘ کے اندازوں کے مطابق آج کل جرمنی میں ایسے افراد کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ ہے، جنہیں ’ٹالریٹڈ سٹے‘ یعنی رہائش کے محض عارضی اجازت نامے حاصل ہیں۔