جرمن سائنسدانوں کا انسانوں پر زہریلے دھوئیں کا تجربہ
29 جنوری 2018جرمن کار ساز اداروں کی درخواست پر سائنسدانوں نے ایسے تجربات سن 2012 سے سن 2015 کے درمیان کیے تھے۔ ان تجربات کی تفصیلات ’اشٹٹ گارٹر سائٹنگ‘ اور ’زُوڈ ڈوئچے سائٹنگ‘ میں شائع ہوئی ہیں۔ اس تناظر میں کار ساز اداروں کا موقف یہ ہے کہ یہ تجربات کار سازی کے فائدے میں تھے اور بنیادی مقصد ڈیزل کاروں کے اخراج کو محدود کرنا تھا۔
ڈیزل کا دھواں اسبسطوس جتنا ضرر رساں
فوکس واگن اسکینڈل: 14.7 بلین ڈالرز میں معاملہ طے
آلودگی کے کنٹرول میں ’فراڈ‘، امریکا کا فوکس ویگن پر الزام
موسمياتی تبديليوں پر اجلاس، اختلافات برقرار ليکن اميد قائم
یہ تجربات یورپی ریسرچ گروپ انوائرنمنٹ اینڈ ہیلتھ ٹرانسپورٹ سیکٹر (Environment and Health in the Transport Sector) یا EUGT نے ماحولیات اور انسانی صحت کے تناظر میں کروائے تھے۔ اس گروپ کو جرمن کار ساز اداروں فولکس ویگن، ڈائملر اور بی ایم ڈبلیو نے مشترکہ طور پر تشکیل دیا تھا جبکہ اسے جرمن حکومت نے خلاف ضابطہ قرار دینے کے بعد تحلیل بھی کر دیا تھا۔
ان تجربات میں انسانوں کے ایک گروپ کو مہلک گیس نائٹروجن ڈائی آکسائیڈ کو اخراج کے وقت سانس کے ذریعے اپنے اندر لے کر جانا تھا اخباری رپورٹوں کے مطابق آخن یونیورسٹی کے ہسپتال میں پچیس افراد کو نائٹروجن ڈائی آکسائیڈ کی موجودگی میں سانس لینے کی وجہ سے علاج معالجے کی سہولت فراہم کی گئی تھی۔
ان اخباری رپورٹوں پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کارساز ادارے فولکس ویگن نے کہا ہے کہ یہ درست ہے کہ اُس وقت کیے جانے والے تجربات اور سائنسی طریقہ ایک غلط اور نامناسب فیصلہ تھا۔ ڈائملر کمپنی نے بھی ان تجربات کی تفصیلات پر حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے افسوس کا اظہار کیا ہے۔ ڈائملر کے مطابق اُسے EUGT کے طریقہٴ کار اور اقدامات کا کوئی علم نہیں تھا۔
اس مناسبت سے گزشتہ ویک اینڈ پر بندروں پر کیے جانے والے تجربات کی تفصیلات بھی سامنے آئی ہیں۔ ڈائملر کی جانب سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ اُس نے بندروں اور انسانوں پر کیے جانے والے تجربات کی انکوائری شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔