جرمن صدر میانمار میں
10 فروری 2014میانمار کے دورے پر گئے ہوئے جرمن صدر نے یہ بیان گزشتہ روز یعنی اتوار کو دیا۔ آج پیر کو جرمن صدر نے میانمار کے صدر تھین سین سے ملاقات کی۔ جرمن صدر یوآخم گاؤک اپنے حالیہ دورہ بھارت کو مکمل کرنے کے بعد میانمار پہنچے جہاں انہوں نے اس جنوب مشرقی ایشیائی ریاست میں جمہوریت کے قیام کے لیے کی جانے والی کوششوں کو قابل تحسین قرار دیا۔
ملکی صدر تھین سین کے ساتھ ملاقات میں جرمن صدر نے سین کی سیاسی اصلاحات کی پالیسی کو ’ تاریخی‘ قرار دیا۔ تاہم یوآخم گاؤک نے ملک میں افہام و تفہیم کے فروغ کے لیے مزید موثر اقدامات کی ضرورت پر زور دیا۔
آج پیر کو جرمن صدر نے میانمار کے دارالحکومت نِپ یادیو میں میانمار کے صدر تھین سین کے ساتھ ملاقات کے بعد ایک تقریر کی۔ انہوں نے میانمار کی تمام اقلیتیوں کے ساتھ فائر بندی، سیاسی قیدیوں کی رہائی اور ماضی میں کالعدم قرار دی جانے والی سیاسی جماعتوں کی بحالی پر خاص طور سے زور دیا۔ اس موقع پر گاؤک نے کہا،’’ میانمار میں اصلاحات کی تاریخی تبدیلی اس لیے ممکن ہوئی کہ حکومت اور اپوزیشن نے مثبت طریقے سے تعاون اور اشتراک عمل کا مظاہرہ کیا۔‘‘
جرمن صدر نے اس موقع پر مزید کہا کہ فائر بندی تنہا ملک میں امن کی ضمانت نہیں۔ یوآخم گاؤک نے بین الاقوامی میڈیا کی شورش زدہ علاقے راکھین میں آئے دن ہونے والی جھڑپوں اور ماضی کی طرح اب بھی روہنگیا کی مسلمان اقلیت کی غیر واضح قانونی حیثیت پر تشویش کا اظہار کیا۔ جرمن صدر نے کہا،" بُدھ مت کے ماننے والوں اور اسلام کے پیروکاروں کے مابین آئے دن ہونے والے پُر تشدد تصادم کے سبب ملک میں بدامنی اور ناخوشگوار فضا قائم ہے۔ اس تنازعے کے حل کے لیے ضروری یہ ہے کہ متصادم فریقین کو مذاکرات کے لیے قریب لایا جائے" ۔ یوآخم گاؤک نے تھین سین کو ان کٹھن معاملات میں جرمنی کے مکمل تعاون کا یقین دلایا۔
جرمن صدر نے میانمار کے اپنے ہم منصب کے ساتھ صدارتی محل میں آج متعدد معاہدوں پر دستخط کیے۔ اس موقع پر گاؤک نے کہا کہ اُن کا یہ دورہ اور دورے کے دوران مختلف معاہدوں پر دستخط سے جرمنی اور میانمار کے تعلقات کا ایک نیا باب شروع ہوا ہے۔ جرمن صدر نے دونوں ممالک کے مختلف سماجی گروپوں کے تبادلہ پر بھی غیر معمولی زور دیا۔ آج سہ پہر جرمن صدر نے میانمار کی اپوزیشن لیڈر اور امن نوبل انعام یافتہ سیاست دان آنگ سانگ سوچی سے ملاقات کی۔
آج یعنی پیر کی شام جرمن صدر رنگون کے لیے پرواز کریں گے جہاں سے وہ بُدھ کو اپنے وطن لوٹیں گے۔ جرمن صدر کے جنوبی ایشیائی ممالک کے حالیہ آٹھ روزہ دورے میں میانمار بھارت کے بعد اُن کی دوسری منزل ہے۔ جرمن صدر کے بقول جرمنی بحیثیت ایک جمہوری ریاست بہت سے ایشیائی ممالک کے لیے ایک رول ماڈل ہے۔
میانمار جسے ماضی میں برما کہا جاتا تھا، پر کئی عشروں تک ملٹری جنتا کی حکومت رہی ہے۔ مارچ 2011 ء سے اس ملک میں ایک دستوری سول حکومت قائم ہے جس کی سربراہی سابق فوجی جنرل تھین سین کر رہے ہیں۔