1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمن قونصل خانے میں بلوچستان کے ثقافتی رنگ

رفعت سعید، کراچی21 نومبر 2013

پاکستانی شہر کراچی کے جرمن قونصل خانے میں 18 نومبر کو ’بلوچستان ایوننگ‘ کے نام سے بلوچ رقص و موسیقی کی ایک شاندار محفل میں خاتون جرمن ماہر آثارِ قدیمہ ڈاکٹر اُوتے فرانکے نے بلوچ ثقافت اور تاریخ پر اظہارِ خیال بھی کیا۔

https://p.dw.com/p/1ALlW
بلوچ فنکار اٹھارہ نومبر 2013ء کو کراچی کے جرمن قونصل خانے میں منعقدہ ’ایک شام بلوچستان کے نام‘ میں اپنے فن کا مظاہرہ کر رہے ہیں
بلوچ فنکار اٹھارہ نومبر 2013ء کو کراچی کے جرمن قونصل خانے میں منعقدہ ’ایک شام بلوچستان کے نام‘ میں اپنے فن کا مظاہرہ کر رہے ہیںتصویر: Rafat Saeed

کراچی کے جرمن قونصل خانے میں منعقدہ تقریب ’ایک شام بلوچستان‘ کے نام میں جہاں بلوچ تہذیب و ثقافت کے رنگ نظر آئے، وہیں خاتون جرمن ماہر آثارِ قدیمہ ڈاکٹر اُوتے فرانکے نے بلوچ ثقافت اور تاریخ پر روشنی ڈالتے ہوئے یہ بھی کہا کہ بلوچستان کی تاریخ سات ہزار سال پرانی ہے۔ دشوار گزار اور سخت موسم والے بلوچستان کے لوگ ایک ایسے علاقے میں، جہاں کوئی دریا بھی نہیں ہے، مختلف جانوروں اور پھلوں کی افزائش کر کے یہ ثابت کرتے تھے کہ اگر انسان دل جمعی سے کام کرے تو فطرت کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔

بلوچستان کی تہذیب اور ثقافت پر تحقیق میں مصروف جرمن ماہرِ آثارِ قدیمہ ڈاکٹر اُوتے فرانکے ’ایک شام، بلوچستان کے نام‘ میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے
بلوچستان کی تہذیب اور ثقافت پر تحقیق میں مصروف جرمن ماہرِ آثارِ قدیمہ ڈاکٹر اُوتے فرانکے ’ایک شام، بلوچستان کے نام‘ میں اظہارِ خیال کرتے ہوئےتصویر: Rafat Saeed

پاکستان کا سب سے کم ترقی یافتہ صوبہ بلوچستان کبھی ترقی و ثقافت کا گہوارہ رہا ہے اور بلوچستان کی قدیم تاریخ پر تحقیق میں مصروف جرمن محقق اوتے فرانکے کہتی ہیں کہ وادیِ سندھ کی تہذیب بھی بلوچستان ہی کی مرہون منت رہی ہے۔


ڈاکٹر فرانکے نے کہا کہ ایسا علاقہ، جہاں کبھی 300 ملی میٹر سے زیادہ سالانہ بارش نہ ہوئی ہو، وہاں تہذیب کا پایا جانا ایک معجزے سے کم نہیں۔ یہ معجزہ بتاتا ہے کہ قدیم بلوچستان میں بھی لوگ ذہین اور محنت کرنے والے تھے۔

یہ جرمن محققہ قدیم بلوچ تہذیب کے حوالے سے کہتی ہیں:’’اس قدیم تہذیب کا پتہ صرف ان 800 برتنوں سے چلتا ہے، جنہیں پچھلے دنوں کچھ جرائم پیشہ افراد نے متحدہ عرب امارات اسمگل کرنے کی کوشش کی، جو اتفاق سے پاکستان کسٹم نے ناکام بنا دی۔ اگر یہ کوشش کامیاب ہو جاتی تو یہ پاکستان میں بلوچستان کی تاریخ کے ساتھ ایک بڑا ظلم ہوتا۔‘‘

’ایک شام، بلوچستان کے نام‘ میں فنکار بلوچ رقص پیش کر رہے ہیں
’ایک شام، بلوچستان کے نام‘ میں فنکار بلوچ رقص پیش کر رہے ہیںتصویر: Rafat Saeed

ڈاکٹر فرانکے بلوچستان کی ثقافت سے دلچسپی ہی نہیں رکھتیں بلکہ وہ اسے محفوظ کرنے پر بھی کام کر رہی ہیں۔ انہوں نے بلوچستان کے ایک گاؤں میں اپنا ایک گھر بھی بنا رکھا ہے، جہاں وہ ایک طویل عرصے تک قیام پذیر بھی رہیں لیکن اب وہ بد امنی کی وجہ سے وہاں نہیں جا سکتیں۔ وہ کہتی ہیں کہ انہیں اپنا بلوچ گاﺅں بہت یاد آتا ہے۔


ڈاکٹر فرانکے نے کہا کہ اگر ہم بلوچ ثقافت کو سمجھنا چاہتے ہیں اور نئی نسلوں کو اس سے روشناس کروانا چاہتے ہیں تو ہمیں اس کی حفاظت کرنا ہو گی۔

جرمن قونصلر ٹیلو کلنر
جرمن قونصلر ٹیلو کلنرتصویر: Rafat Saeed

قرنصل خانے میں منعقدہ تقریب میں بلوچ ثقافت کو سپاس پیش کرنے کے لیے بلوچستان کے شہر ڈیرہ بگٹی کے مشہور سرود بجانے والے سچو خان نے بلوچ لوک موسیقی کی تانوں سے ایک سماں باندھ دیا۔ ان کے ساتھ تھال اور طنبورے پر دیگر سازندے بھی تھے۔

اس تقریب میں گلوکار خان محمد نے بلوچ گیت بھی پیش کئے اور سننے والوں پر ایک گہرا تاثر چھوڑا۔ تقریب کے آخر میں روایتی بلوچ رقص بھی پیش کیا گیا۔


سرود نواز سچو خان نے پروگرام کے بعد DW سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بلوچ موسیقی میں جرمنوں کی دلچسپی کی وجہ صرف یہ ہے کہ موسیقی کی کوئی زبان نہیں ہوتی۔


تقریب میں آئے ہوئے مہمانوں نے اس تقریب کے انعقاد کو بہت زیادہ سراہا۔ شرکائے تقریب نے بلوچ ثقافت کو تاریخی اثاثہ قرار دیا۔ اس کی حفاظت اور ترقی خطے میں قیام امن کے لیے نہایت ضروری ہے۔ اس سلسلے می جرمن حکومت کی دلچسپی کو خصوصی طور پر سراہا گیا۔

جرمن قونصلر ٹیلو کلنر نے DW سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا:’’جرمن حکومت اپنی اس ثقافتی ذمہ داری کو سمجھتی ہے اور اس کی بجا آوری کے دوران بلوچستان اور اس کے عوام کو تنہا نہیں چھوڑے گی۔‘‘