جرمن وزیر چہرے پہچان لینے والے سسٹم کی تنصیب کے خواہش مند
21 اگست 2016جرمن دارالحکومت برلن سے اتوار اکیس اگست کو ملنے والی رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ وفاقی وزیر داخلہ تھوماس ڈے میزیئر نے اخبار ’بلڈ اَم زونٹاگ‘ میں آج شائع ہونے والے اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ گزشتہ ماہ ملک میں مسلم عسکریت پسندوں کی طرف سے کیے جانے والے دو خونریز حملوں کے بعد جرمنی کے تمام ہوائی اڈوں اور ریلوے اسٹیشنوں پر ایسے نظام نصب کر دیے جائیں، جن کی مدد سے مشتبہ افراد کے چہروں کی آن لائن شناخت ممکن ہو سکے۔
ڈے میزیئر نے کہا کہ انٹرنیٹ پر ایسے بہت سے سافٹ ویئر موجود ہیں، جن کی مدد سے کسی بھی شخص کی تصویر آن لائن اپ لوڈ کر کے یہ معلوم کیا جا سکتا ہے کہ آیا تصویر میں نظر آنے والا فرد کوئی سیاستدان ہے یا پھر کسی دوسرے شعبے کی کوئی مشہور شخصیت۔
وفاقی وزیر داخلہ نے Bild am Sonntag کو بتایا، ’’میں اسی طرح کی انسانی چہروں کو شناخت کر لینے والی ٹیکنالوجی ان ویڈیو کیمروں میں استعمال ہوتی دیکھنا چاہوں گا، جو جرمن ہوائی اڈوں اور ریلوے اسٹیشنوں پر نصب ہیں۔ اس طرح کی جدت پسندانہ ٹیکنالوجی کا فائدہ یہ ہو گا کہ جب ایسی ویڈیو نگرانی کرنے والے نظاموں میں کسی مشتبہ شخص کا چہرہ نظر آئے گا، تو یہ سسٹم اسے پہچان کر اس کی نشاندہی کر سکیں گے۔‘‘
تھوماس ڈے میزیئر نے اپنے اس موقف کے حق میں یہ دلیل بھی دی کہ تقریباﹰ اسی طرح کا ایک ویڈیو نگرانی سسٹم تجرباتی طور پر ایسے سامان کی شناخت کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے، جس کا کوئی مالک نہ ہو اور جسے کسی ایئر پورٹ یا ٹرین اسٹیشن پر لاوارث چھوڑ دیا گیا ہو۔
انہوں نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا، ’’ایسے کسی بھی لاوارث سامان یا سوٹ کیس وغیرہ کو چند منٹ کے ایک مقررہ وقت کے بعد موقع پر نصب کردہ ویڈیو کیمرے خود بخود رپورٹ کر دیتے ہیں۔‘‘
اس بارے میں نیوز ایجنسی روئٹرز نے برلن سے اپنی رپورٹوں میں لکھا ہے کہ کئی دیگر مغربی ممالک بھی جرمنی کی طرح ایسی ٹیکنالوجی کے ممکنہ استعمال کا جائزہ لے رہے ہیں لیکن جرمنی میں اس بارے میں اب تک ایک خاص طرح کی روایتی ہچکچاہٹ دیکھنے میں آتی رہی ہے۔
جرمنی میں عوام روایتی طور پر بہت زیادہ ریاستی نگرانی کے بارے میں اس لیے بھی کم امیدی کا اظہار کرتے ہیں کہ پہلے نازی دور میں گسٹاپو کے ذریعے اور پھر سابقہ مشرقی جرمنی کی کمیونسٹ ریاست میں شٹازی کہلانے والی خفیہ ریاستی پولیس کے ہاتھوں ناانصافیوں اور استحصال کے باعث ان کے اجتماعی تجربات بہت تلخ رہے ہیں۔
اس پس منظر میں وزیر داخلہ ڈے میزیئر نے اپنے انٹرویو میں مزید کہا، ’’ہمیں زیادہ سکیورٹی انتظامات، لمبی قطاروں اور سخت نگرانی کا عادی ہونا پڑے گا۔ یہ عمل بوجھ محسوس ہوتا ہے، بیزار کر دیتا ہے، اس میں وقت بھی زیادہ لگتا ہے۔ لیکن میری رائے میں ایسا کرنا ضروری ہے اور اس سے شخصی آزادی محدود نہیں ہو گی۔‘‘