جرمنی: زولنگن کے نسل پرستانہ حملے کے پچیس برس
29 مئی 201829 مئی 1993ء کے روز نسل پرستی اور نفرت کی بنیاد پر دائیں بازو کے ایک شدت پسند گروہ نے ایک گھر پر آتش گیر مادہ پھینکا تھا۔ اس گھر میں ترک خاندان ’ گینچ‘ رہتا تھا۔ اس حملے میں ہلاک ہونے والوں میں سب سے کم عمر چار سالہ صائمہ گینچ تھی جبکہ اس حملے کا شکار ہونے والے دیگر افراد میں نو سالہ ہولیا گینچ، گیارہ سالہ گلستان اوزترک، بارہ سالہ خدیجہ گینچ اور ستائیس سالہ جونسور انسے بھی شامل تھیں۔
پولیس نے جلد ہی حملہ آوروں کی شناخت کر لی تھی۔ یہ 16 سے 23 سال تک کی عمر کے لڑکوں کا ایک گروہ تھا۔ ان میں سے ایک آگ میں جل جانے والے گھر کے قریب ہی رہتا تھا۔ 1995ء میں ان تمام افراد کو دس سے پندرہ سال تک قید کی سزائیں سنا دی گئی تھیں۔
اس واقعے کے تین دن بعد ہی جرمن پارلیمان نے سیاسی پناہ دینے کے قوانین میں رد و بدل کرنے کی منظوری دے دی تھی۔ اس سلسلے میں تمام بڑی جماعتوں نے جرمن آئین میں ترمیم پر اتفاق کیا تھا۔ حکومت نے آئین کی شق سولہ کے تحت اُس وقت جرمنی میں موجود تمام پناہ گزینوں کو سیاسی پناہ کے حوالے سے بے پناہ حقوق دینے کا اعلان کیا تھا۔
آج اس واقعے کے پچیس برس پورے ہونے پر ڈسلڈورف اور زولنگن میں دو مختلف تقریبات میں ان ہلاک شدگان کو یاد کیا جا رہا ہے۔ ڈسلڈورف میں ہونے والی تقریب کے شرکاء سے جرمن چانسلر انگیلا میرکل بھی خطاب کریں گے۔ ساتھ ہی ترک وزیر خارجہ چاوُش اولُو بھی خصوصی طور پر ان دونوں تقریبات میں شرکت کے لیے جرمنی میں ہیں۔
جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے اس تناظر میں کہا ہے، ’’زولنگن میں ہلاک ہونے والے ہمارے لیے ایک یاد دہانی ہیں، نہ بھولنا، نہ نظریں چرانا اور نہ ہی خاموش رہنا۔‘‘ انہوں نے مزید کہا، ’’زولنگن کا خوفناک واقعہ ہم سب پر حملہ تھا، ہماری اقدار پر اور ہماری پر امن سماجی ہم آہنگی پر۔‘‘ اس موقع پر جرمن وزیر نے مزید کہا کہ نسل پرستی اور نفرت انگیزی کے خلاف جنگ جاری رہنی چاہیے۔