1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مشرقی جرمنی دائيں بازو کا گڑھ کيوں ہے؟

عاصم سلیم
19 مئی 2017

مشرقی جرمنی ميں نسل پرستی پر مبنی جرائم اور اجنبيوں سے خوف کے اسباب اس خطے کے ماضی سے جا ملتے ہيں۔ مشرقی جرمن علاقے سماجی اعتبار سے کافی بند اور تنہا تھے اور وہاں غير ملکيوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر تھی۔

https://p.dw.com/p/2dGGZ
Köln Rechtsaktivisten  Bürgerwehr (picture-alliance/Geisler-Fotopress)
تصویر: picture-alliance/Geisler/C. Hardt

محققين کے مطابق سن 1989 ميں ديوار برلن کے انہدام سے قبل مشرقی جرمن معاشرہ باہر کی دنيا کے ليے کافی حد تک بند اور الگ تھلگ تھا۔ اس وقت اس خطے ميں کيوبا اور ويت نام سے تعلق رکھنے والے بہت ہی کم غير ملکی آباد تھے، جو وہاں ملازمين کے طور پر موجود تھے۔ علاوہ ازيں خطے کے رہائشيوں ميں يہ تاثر بھی پايا جاتا ہے کہ انہيں شايد نشانہ بنايا گيا ہے اور يہ احساس بھی عام ہے کہ جرمنی کے الحاق کے باوجود اس خطے ميں اقتصادی ترقی کی رفتار مقابلتاً کم رہی ہے۔

’مشرقی جرمنی ميں اجنبيوں سے خوف اور دائيں بازو کی انتہا پسندی کی وجوہات‘ کے عنوان سے اس مطالعے کو گوٹنگن انسٹيٹيوٹ آف ڈيموکريسی ريسرچ نے جرمن حکومت کی مالی امداد سے ترتيب ديا ہے۔ اس خطے کے ليے وفاقی کمشنر آئرس گلائکے نے اس مطالعے کی درخواست اس ليے کی کيونکہ وہ يہ دريافت کرنا چاہتی تھيں کہ جرمنی کے ديگر حصوں کے مقابلے ميں مشرقی جرمن شہروں ميں غير ملکيوں اور پناہ گزينوں کے مراکز پر حملوں کا تناسب زيادہ کيوں ہے۔

رپورٹ پر کام کرنے والوں نے البتہ واضح کيا ہے کہ اجنبيوں سے خوف اور دائيں بازو کی انتہا پسندی محض مشرقی جرمنی کے مسائل نہيں بلکہ یہ ملک کے ديگر حصوں ميں بھی پائے جاتے ہيں۔ سن 2015 ميں ملکی سطح پر دائيں بازو کی انتہا پسندی کے نتيجے ميں ہونے والے جرائم کی تعداد چودہ سو تھی جبکہ اس سے ايک سال قبل يہ تعداد قريب ايک ہزار رہی تھی۔ سن 2015 وہی سال ہے جب يورپ کو درپيش مہاجرين کا بحران اپنے عروج پر تھا اور قريب ايک ملين تارکين وطن سياسی پناہ کے ليے جرمنی آن پہنچے تھے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید