جرمنی میں انتخابات کیسے ہوتے ہیں؟
1 اگست 2017وفاقی جرمن پارلیمان کے ایوان زیریں یا ’بُنڈس ٹاگ‘ کے لیے انتخابات کا نظام خاصا پیچیدہ ہے۔ اس نظام میں براہ راست انتخاب اور متناسب نمائندگی کے طریقوں کے مثبت پہلوؤں کو یکجا کیا گیا ہے۔
میرکل اگلے چار برس تک چانسلر کے فرائض انجام دینے کے لیے پُرامید
کیا میرکل کی مہاجرین پالیسی ان کی شکست کا سبب بن سکتی ہے؟
جرمنی کے وفاقی دفتر شماریات کے مطابق اس برس اٹھارہ سال سے زائد عمر کے 61.5 ملین بالغ جرمن شہری ووٹ ڈالنے کے اہل ہیں۔ اہل ووٹروں کی سب سے بڑی تعداد سب سے زیادہ آبادی والے صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا میں مقیم شہریوں کی ہے، اور یہ تعداد 13.2 ملین بنتی ہے۔ اس کے بعد وفاقی جرمن ریاست باویریا کے 9.5 ملین ووٹر آتے ہیں جب کہ وفاقی ریاست باڈن ورٹمبرگ سے 7.8 ملین شہری وفاقی جرمن انتخابات میں ووٹ ڈالنے کے اہل ہیں۔
سن 2009 اور سن 2013 کے انتخابات کے دوران ٹرن آؤٹ کم رہا تھا اس کے باوجود ستّر فیصد اہل شہریوں نے انتخابی عمل میں حصہ لیا تھا۔ اس برس جرمنی میں عوامیت پسندوں کی بڑھتی سیاسی مقبولیت کے باعث ایسے افراد بھی ممکنہ طور پر ووٹ ڈالنے نکلیں گے، جو عام طور پر ووٹ نہیں ڈالتے۔ اسی وجہ سے توقع کی جا رہی ہے کہ اس سال وفاقی انتخابات میں ٹرن آؤٹ ماضی کی نسبت زیادہ رہے گا۔
’دو حصوں میں ووٹ‘
ستمبر میں جب ووٹ ڈالنے کے اہل جرمن شہری انتخابی مراکز پر پہنچیں گے تو ووٹ ڈالنے والے ہر شہری کو ہمیشہ کی طرح دو بیلٹ پیپر دیے جائیں گے۔ ایک بیلٹ پیپر کے ذریعے وہ اپنے حلقے سے اپنے کسی بھی پسندیدہ امیدوار کو براہ راست پارلیمان کا رکن بنانے کے لیے ووٹ ڈالیں گے جب کہ دوسرے بیلیٹ پیپر کے ذریعے اپنی پسندیدہ پارٹی کو ووٹ دیں گے۔
کسی بھی حلقہ انتخاب سے سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والا امیدوار متعلقہ پارلیمانی حلقے سے پارلیمان کا رکن بن جائے گا۔ حلقہ انتخاب ڈھائی لاکھ کی آبادی پر مشتمل ہوتا ہے۔ یوں براہ راست منتخب ہونے والے امیدوار وفاقی پارلیمان کے رکن بن جاتے ہیں۔ ایسے ارکان کی تعداد، یا یوں کہیے کہ ایسے انتخابی حلقوں کی تعداد 299 ہے۔
تاہم مجموعی طور پر پارلیمانی نشستوں کی تعداد اس سے دو گنا یعنی 598 ہے۔ پارلیمان کے باقی نصف ارکان کا انتخاب ہر سیاسی جماعت کو ملنے والے ووٹوں کی شرح کے مطابق کیا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں زیادہ آبادی والی وفاقی جرمن ریاستوں سے وفاقی پارلیمان کے ارکان کی تعداد بھی چھوٹے صوبوں کی نسبت زیادہ ہوتی ہے۔
جو بات اس انتخابی عمل کو دلچسپ لیکن بہت پیچیدہ بنا دیتی ہے، وہ یہ ہے کہ ووٹ ڈالنے والا ایک شہری مثال کے طور پر براہ راست رکن پارلیمان بننے کے لیے تو سی ڈی یو کے کسی امیدوار کو ووٹ دیتا ہے لیکن اپنا پارٹی ووٹ وہ اسی جماعت کی اتحادی سی ایس یو کو دے دیتا ہے۔ یوں کسی سیاسی جماعت کے براہ راست منتخب ہونے والے ارکان کی شرح پارٹی کو قومی سطح پر ملنے والے مجموعی ووٹوں کی شرح سے مختلف ہو جاتی ہے۔
’معلق نشستیں‘
انہی دونوں شرحوں کے مابین فرق ختم کرنے کے لیے ’معلق‘ نشستیں دی جاتی ہیں۔ اس سے مراد یہ ہے کہ اگر ایک سیاسی جماعت کے براہ راست منتخب ہونے والے امیدواروں کی تعداد زیادہ ہے تو اسی تناسب سے ان کی پارٹی کو مجموعی ووٹوں کی شرح کے باعث ملنے والی سیٹوں کی تعداد میں بھی اضافہ کر دیا جائے گا۔ لیکن اس کے ساتھ اسی تناسب کے اعتبار سے باقی سیاسی جماعتوں کو بھی زیادہ نشستیں ملیں گی۔
اسی وجہ سے وفاقی جرمن پارلیمان کے ارکان کی مجموعی تعداد بھی انتخابات کے بعد قانونی طور پر طے شدہ، یعنی 598 سے زیادہ ہو سکتی ہے۔ اسی لیے موجودہ جرمن پارلیمان کے ارکان کی مجموعی تعداد بھی 630 ہے۔
’پانچ فیصد کی لازمی شرط‘
جرمنی میں کسی بھی سیاسی جماعت کی پارلیمان میں نمائندگی کے لیے لازم ہے کہ اسے کم از کم پانچ فیصد ووٹ ملے ہوں۔ اس سے کم ووٹ حاصل کرنے والی کسی سیاسی جماعت کو پارلیمان میں کوئی نمائندگی نہیں ملتی۔ جرمنی کی موجودہ پارلیمان میں پانچ سیاسی جماعتوں کو نمائندگی حاصل ہے۔
گزشتہ عام انتخابات کے دوران دائیں بازو کی عوامیت پسند سیاسی جماعت اے ایف ڈی اور ایف ڈی پی پانچ فیصد ووٹ حاصل نہیں کر پائی تھیں جس کے باعث موجودہ وفاقی پارلیمان میں ان کا کوئی ایک بھی رکن شامل نہیں ہے۔ اس مرتبہ میڈیا کی نظریں اس بات پر بھی ہیں کہ آئندہ انتخابات میں یہ سیاسی جماعتیں بھی پارلیمان میں پہنچ پاتی ہیں یا نہیں۔
چانسلر کا انتخاب کون کرتا ہے؟
فرانس اور امریکا کی طرح جرمنی میں عوام براہ راست چانسلر کا انتخاب نہیں کرتے۔ چانسلر کا عہدہ سربراہ حکومت کا ہے اور اس کا انتخاب وفاقی پارلیمان کے ارکان کرتے ہیں۔ انتخابات کے بعد پارلیمان میں سیاسی جماعتوں کے ارکان کی تعداد کے حتمی تعین کے ایک ماہ کے اندر اندر پارلیمان کا اجلاس بلایا جاتا ہے۔
اس عرصے کے دوران اکثریتی ووٹ حاصل کرنے والی جماعت حکومت یا کوئی مخلوط حکومتی اتحاد بنانے کی کوشش کرتی ہے۔ اگر اتحاد پہلے سے طے ہو جائے تو جرمن صدر پارلیمان کا اجلاس اس سے پہلے بھی طلب کر سکتے ہیں۔ صدر مملکت اکثریتی ارکان والی سیاسی جماعت اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے نامزد کردہ امیدوار کو حکومت سازی کی د عوت دیتے ہیں، جس کے بعد نو منتخب ارکان پارلیمان خفیہ رائے دہی کے ذریعے اس امیدوار کی تائید یا مخالفت میں ووٹ دیتے ہیں۔
جرمنی میں گزشتہ تینوں عام انتخابات میں سی ڈی یو نے دوسری جماعتوں سے زیادہ ووٹ حاصل کیے تھے اور اسی جماعت کی جانب سے انگیلا میرکل کو نامزد کیا گیا تھا۔ اس مرتبہ بھی میرکل ہی سی ڈی یو کی جانب سے چانسلر کے عہدے کی امیدوار ہیں۔
جرمنی میں ایسی کوئی قید نہیں کہ کوئی سیاست دان کُل کتنی مرتبہ چانسلر بن سکتا ہے تاہم وفاقی جرمن تاریخ میں اب تک مجموعی طور پر سولہ برس سے زیادہ کے عرصے کے لیے کوئی بھی شخص چانسلر کے عہدے پر فائز نہیں رہا۔