جرمنی میں تارکین وطن کا انضمام، بحث ترکی پہنچ گئی
19 اکتوبر 2010جرمنی کے صدر کرسٹیان وولف ایسے وقت ترکی پہنچے ہیں، جب جرمنی میں غیرملکیوں کے انضمام سے متعلق بحث اہم موڑ پر ہے۔ انہوں نے رواں ماہ ہی ایک بیان میں کہا تھا کہ مسیحیت اور یہودیت کی طرح اسلام بھی جرمنی کا حصہ ہے۔
دوسری جانب جرمن صوبے باویریا کے وزیراعلیٰ کہہ چکے ہیں کہ جرمنی کو دیگر ثقافتوں سے تعلق رکھنے والے مزید تارکین وطن کی کوئی ضرورت نہیں ہے جبکہ جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے بھی کہا ہے کہ جرمنی میں بین الثقافتی معاشرے کا منصوبہ ناکام ہوگیا ہے۔ انہوں نے تارکین وطن کی جانب سے جرمن زبان نہ سیکھنے کو ایک مسئلہ قرار دیا۔
اُدھر ترکی کے روزنامہ حریت میں کرسٹیان وولف کا بیان شائع ہوا ہے، جس میں انہوں نے اسی مسئلے پر زور دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے، ’بہت سے مسائل کا حل جرمن زبان سیکھنے میں ہے۔ یہی ایک راستہ ہے، جو تارکین وطن پر ہمارے تعلیمی نظام سمیت دیگر مواقع کے دروازے کھولے گا۔‘
ترک صدر عبداللہ گُل نے بھی جرمنی میں آباد ترک نژاد تارکین وطن پر جرمن زبان سیکھنے کے لئے زور دیا ہے۔
گزشتہ کئی دہائیوں میں کسی جرمن سربراہ مملکت کا ترکی کا یہ پہلا دورہ ہے۔ وہ انقرہ کے پارلیمنٹ سے خطاب بھی کریں گے۔
کرسٹیان وولف ترک وزیراعظم رجب طیب ایردوآن اور ترکی کے اعلیٰ مذہبی رہنما بردکوغلو سے بھی ملاقات کر رہے ہیں۔
جرمن صدر ترکی کے صنعتی شہر قیصری بھی جائیں گے۔ ساتھ ہی کون شکل کی پہاڑیوں کے لئے مشہور خطے Cappadocia کا دورہ بھی کریں گے جبکہ علاقے تارسس میں تاریخی سینٹ پالز چرچ کا دورہ بھی کریں گے۔
کرسٹیان وولف استنبول میں آرتھوڈوکس مسیحیوں کے روحانی پیشوا بارتھولومیو اوّل سے بھی ملاقات کریں گے۔ رواں ہفتے جمعہ کو اپنے دورے کے اختتام پر وہ ایک ترک۔جرمن یونیورسٹی کا سنگِ بنیاد بھی رکھیں گے۔
خیال رہے کہ جرمنی میں آباد تارکین وطن کی بڑی تعداد ترک نژاد شہریوں پر مشتمل ہے۔ جرمنی کی آبادی آٹھ کروڑ 20 لاکھ ہے، جس میں 25 لاکھ ترک نژاد شہریوں سمیت 40 لاکھ مسلمان ہیں۔ گو کہ ان کی نئی نسل میں سے متعدد جرمن ثقافت میں رچ بس چکے ہیں، پھر بھی ان کی بڑی تعداد نے کبھی مقامی زبان نہیں سیکھی، نہ ہی جرمن باشندوں میں گھلنے ملنے کی کوشش کی۔
خبررساں ادارے اے ایف پی کے مطابق جرمنی میں یہ تشویش بھی پائی جاتی ہےکہ یہاں کی ثقافت کا حصہ بننےمیں مسلمانوں کی ناکامی مقامی سطح پر اسلامی انتہاپسندی کا باعث بن رہی ہے۔
رپورٹ: ندیم گِل
ادارت: عدنان اسحاق