جرمنی میں مہاجرین کے باعث سکیورٹی خطرات کے کوئی آثار نہیں
17 نومبر 2015وفاقی دارالحکومت برلن سے منگل سترہ نومبر کے روز موصولہ نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق اب تک ایسے کوئی اشارے نہیں ملے کہ جرمنی پہنچنے والے مہاجرین کے بھیس میں ایسے ممکنہ عسکریت پسند بھی ملک میں داخل ہو چکے ہوں جو جرمن سرزمین پر کوئی دہشت گردانہ کارروائیاں کر سکتے ہیں۔
جرمنی میں جرائم کی تحقیقات کرنے والے وفاقی ادارے BKA کے سربراہ ہولگر میونش نے جریدے ’دی وَیلٹ‘ کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ پیرس میں حالیہ دہشت گردانہ حملوں کے بعد جرمنی میں اس بارے میں عوامی تشویش ممکن ہے کہ برلن حکومت کی مہاجرین سے متعلق ’کھلے دروازے‘ کی پالیسی ایک ’سکیورٹی رِسک‘ ثابت ہو سکتی ہے۔
تاہم ہولگر میونش Holger Muench نے کہا کہ بنیاد پسندانہ سوچ رکھنے والے اسلام پسندوں نے مغربی اہداف کو اپنی نظروں میں رکھا ہوا ہے، اس لیے اصولی طور پر جرمنی میں دہشت گردانہ حملوں کا امکان اپنی جگہ موجود ہے۔ لیکن بی کے اے کے صدر نے یہ بھی کہا کہ ایسے کوئی آثار نہیں ہیں کہ جرمنی میں ایسا کوئی حملہ فوری طور پر اور عین ممکن ہے۔
انہوں نے اخبار ’دی وَیلٹ‘ کو بتایا، ’’اس خطرے کی سطح کو بہت سنجیدگی سے لیا جانا چاہیے۔ لیکن ہمیں ابھی تک ایسے کوئی آثار یا عمومی اشارے نہیں ملے، جن کے مطابق جرمنی میں ایسے کسی حملے کی منصوبہ بندی کی گئی ہو۔‘‘ ہولگر میونش کے مطابق، ’’ابھی تک ہمیں ایسی کوئی خفیہ اطلاع یا شواہد نہیں ملے کہ جرمنی میں بظاہر کسی پناہ گزین کے روپ میں لیکن مسلح حملوں کی نیت سے کوئی دہشت گرد بھی داخل ہوا ہو۔‘‘
فیڈرل کریمینل آفس کے صدر میونش نے مزید بتایا کہ اس وقت تارکین وطن کے طور پر جرمنی میں داخل ہونے والے 10 ایسے غیر ملکیوں کے خلاف تحقیقات کی جا رہی ہیں، جن کے بارے میں شبہ ہے کہ وہ ممکنہ طور پر جہادی یا جنگی مجرم ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان تارکین وطن کے خلاف چھان بین زیادہ تر دیگر مہاجرین کی طرف سے ملنے والی اطلاعات کے بعد شروع کی گئی۔
روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق فرانسیسی دارالحکومت پیرس میں گزشتہ جمعے کے روز متعدد دہشت گردوں کی خود کش حملوں اور فائرنگ کی صورت میں مختلف مقامات پر کی جانے والی مربوط مسلح کارروائیوں کے نتیجے میں کم از کم 129 افراد کی ہلاکت کے بعد اس بارے میں خدشات میں قدرے اضافہ ہوا ہے کہ جرمنی کے لیے اس کی ’شام سے آنے والے مہاجرین کے لیے اپنے دروازے کھلے رکھنے کی پالیسی‘ خطرناک ثابت ہو سکتی ہے اور یہی بات پورے یورپ کے لیے بھی سکیورٹی خطرات کا سبب بن سکتی ہے۔
شام اور عراق کے وسیع تر علاقوں پر قابض عسکریت پسند تنظیم اسلامک اسٹیٹ یا داعش پیرس میں حالیہ دہشت گردانہ حملوں کی ذمے داری قبول کر چکی ہے۔