جرمنی: پناہ کا فیصلہ کرنے والوں کی اکثریت اہلیت نہیں رکھتی
3 جون 2017جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے ایک مقامی اخبار میں شائع ہونے والی رپورٹوں کے حوالے سے لکھا ہے کہ وفاقی دفتر برائے مہاجرت و ترک وطن کے اہلکاروں کی اکثریت پناہ کی درخواستوں کا جائزہ لینے اور ان پر فیصلے کرنے کے لیے درکار تعلیمی قابلیت نہیں رکھتی۔
2017ء جرمنی سے ملک بدریوں کا سال ہو گا، جرمن وزیر
مقامی جرمن اخبار نرنبرگر میں آج تین جون بروز ہفتہ شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں بی اے ایم ایف کی ایک داخلی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ ادارے کے 454 اہلکار پناہ کی درخواستوں پر فیصلے کرنے کے لیے مطلوبہ تعلیمی معیار نہیں رکھتے۔
اگست 2015 سے لے کر مارچ 2017 تک وفاقی دفتر برائے مہاجرت و ترک وطن میں تین ہزار سے زائد اہلکار جرمنی میں جمع کرائی گئی سیاسی پناہ کی درخواستوں پر فیصلے کرنے کے لیے تعینات تھے۔ یوں قابلیت نہ رکھنے والے اہلکار مجموعی تعداد کا قریب پندرہ فیصد ہیں۔ ادارے کی کارکردگی جانچنے کے لیے تیار کی گئی داخلی رپورٹ اس برس انیس مئی کو تیار کی گئی تھی۔
ہزاروں پناہ گزین اپنے وطنوں کی جانب لوٹ گئے
مہاجرین کے امور سے متعلق اس وفاقی جرمن ادارے میں تعیناتی کوٹہ سسٹم کے تحت کی گئی۔ ایسے اہلکاروں کی ذمہ داریوں میں پناہ کی درخواستیں وصول کرنا، درخواستوں کے ساتھ جمع کرائی گئی دستاویزات کی جانچ پڑتال کرنا اور درخواست گزاروں کو جرمنی میں پناہ دینے یا نہ دینے کا فیصلہ کرنا شامل ہے۔
جرمنی میں مہاجرین کا بحران شروع ہونے کے بعد پناہ کی درخواستوں کی بڑی تعداد کے تناظر میں بی اے ایم ایف نے یکم اگست 2015 سے لے کر یکم مارچ 2016 تک مجموعی طور پر 3340 نئے اہلکار بھرتی کیے تھے۔ ان میں سے قریب ستائیس سو (یا اسی فیصد) اہلکار مطلوبہ قابلیت نہیں رکھتے تھے۔
تاہم ادارے نے ان اہلکاروں کی بھرتی کے لیے دیے گئے اشتہار میں واضح کیا تھا کہ پناہ کی درخواستیں نمٹانے کے لیے انہیں نوکری کے دوران ہی ٹریننگ دی جائے گی۔
وفاقی دفتر برائے مہاجرت و ترک وطن کی خاتون ترجمان نے اس معاملے کی وضاحت کرتے ہوئے مقامی اخبار کو بتایا کہ پناہ کی درخواستوں پر فیصلے کرنے والے اہلکاروں کی بھرتی مختلف ’ٹارگٹ گروپس‘ سے مطابقت کا دھیان رکھتے ہوئے کی تھی۔
خاتون ترجمان نے یہ بھی کہا کہ فرانکو اے نامی جرمن فوجی کی پناہ کی درخواست منظور کیے جانے کا معاملہ سامنے آنے کے بعد مہاجرین کے امور سے متعلق اس وفاقی ادارے نے فیصلے کرنے کے لیے اختیار کردہ طریقہ کار مزید سخت کر دیا ہے۔
دو برسوں میں ایک لاکھ سے زائد پاکستانیوں نے یورپ میں پناہ کی درخواستیں دیں