جسم فروشی کے کاروبار پر پہلی وی آر دستاویزی فلم
3 مارچ 2017
یہ دستاویزی فلم دیہات سے تعلق رکھنے والی ایک بھارتی لڑکی کی سرگزشت پر مبنی ہے جسے جنسی کاروبار کا حصہ بنایا گیا۔ فلم میں وی آر ٹیکنالوجی کے ذریعے بھر پور طریقے سے اِس لڑکی کی کہانی کی عکاسی کی گئی ہے جسے شادی کے بعد جسم فروشی کے ایک اڈے میں اسمگل کر دیا جاتا ہے۔
''مائی چوائسز فاؤنڈیشن‘‘ کی حنّا نورلنگ نے تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن سے بات کرتے ہوئے بتایا،’’ورچوئل رئیلٹی کہانی بیان کرنے کی ایک بہت طاقتور شکل ہے۔ اِس کے ذریعے دنیا بھر میں جسم فروشی کے کاروبار کا معاملہ توجہ حاصل کرے گا۔‘‘ ’مائی چوائس فاؤنڈیشن‘ ایک غیر منافع بخش تنظیم ہے جس نے ایک امریکی ورچوئل رئیلٹی ٹیک فرم ’ اوکولس ‘ کی فلاحی کام کرنے والی شاخ کے ساتھ شراکت میں یہ دستاویزی فلم تیار کی ہے۔ اس فلم کا پریمئیر رواں ماہ ٹیکساس فلم فیسٹیول میں پیش کیا جائے گا۔
فلم بنانے والی ٹیم کو امید ہے کہ یہ وی آر ڈاکیومینٹری زیادہ سے زیادہ لوگوں میں انسانی اسمگلنگ کا شکار ہونے والوں کے لیے ہمدردی اور آگاہی پیدا کرے گی۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں قریب 21 ملین افراد اسمگلنگ کا شکار ہوتے ہیں جن میں 4.5 ملین افراد کو جسم فروشی پر مجبور کیا جاتا ہے۔ اِن میں زیادہ تعداد خواتین اور لڑکیوں کی ہوتی ہے۔ ‘نوٹس ٹو مائی فادر‘ نامی یہ وی آر دستاویزی فلم جسم فروشی کے دھندے کی شکار ایسی ہی ایک بھارتی لڑکی کی کہانی ہے جو اسمگل کیے جانے کی دہشت کو اپنے والد سے بیان کرتی ہے۔
گیارہ منٹ کے دورانیے پر مشتمل یہ فلم دیہاتی زندگی کا مکمل منظرنامہ پیش کرتی ہے۔ بھارتی لڑکی کی سرگزشت کا دائرہ کار اُس کے اِغوا سے فرار تک دو بھارتی ریاستوں آندھرا پردیش اور مہاراشٹر کے سفر پر محیط ہے۔
''مائی چوائس فاؤنڈیشن‘‘ کے ایک جائزے کے مطابق جنسی کاروبار کے لیے اغوا شدہ زیادہ تر لڑکیوں میں سے نوے فیصد کا تعلق معاشرے کے محروم طبقوں سے ہوتا ہے۔ دستاویزی فلم میں دکھائی گئی لڑکی کی شادی 13 سال کی عمر میں کر دی جاتی ہے کیونکہ اُس کا باپ اُسے ایک بہتر زندگی دینے کا خواہش مند ہوتا ہے۔
وی آر فلم میں شوہر کو بیوی سے بد سلوکی کرنے والا دکھایا گیا ہے۔ انسانی اسمگلنگ کرنے والا ایک گروہ اُس سے دوستی کرتا ہے اور منشیات کا عادی بناتا ہے، جس کے بعد اُس لڑکی کو اغوا کر لیا جاتا ہے۔