ابلاغ یعنی اپنی بات کسی دوسرے تک پہنچانا انسان کی بہت بنیادی ضرورت نہ سہی، لیکن یہ عمل اس کی جبلت میں شامل ہے۔ ایک نارمل انسان جیسے سانس لیتا ہے، کھاتا پیتا ہے، ایسے ہی وہ ایک دوسرے سے تبادلہ خیال اور اظہار خیال بھی کرنا چاہتا ہے۔ بہت سے لوگ اس حوالے سے کم یا زیادہ رجحان ضرور رکھ سکتے ہیں، لیکن اس کے بغیر زندگی اجیرن اور مشکل ہو سکتی ہے۔
وقت آگے بڑھا انسان نے اشاروں اور علامتوں کے ارتقائی عمل سے گزر کر زبان سیکھی، بات چیت کرنے لگا، پھر ابلاغ عامہ کے مختلف ذرائع آ گئے، جس کے ذریعے ایک وقت میں اپنی بات کئی لوگوں تک پہنچانا ممکن ہو گیا۔ پتھروں سے لے کر کتابیں اور پھر ریڈیو اور ٹی وی کے بعد انٹرنیٹ نے تو اسے کئی گنا تیز تر کر دیا اور اسی ارتقا کے نتیجے میں آج ہم ''سوشل میڈیا‘‘ یا ''سماجی ذرائع ابلاغ‘‘ کے دور میں موجود ہیں۔ جس میں یہ انفرادیت موجود ہے کہ یہاں ہر فرد ہی بات کر سکتا ہے۔ اظہار خیال تک تو یہ بالکل ٹھیک ہے، تبصرے کے لیے بھی یہ عینک بہت مفید ہے، لیکن بات جب حقائق کو بیان کرنے کی ہو تو اس کی اہمیت اور اس کے لیے ذمہ داری بھی بہت بڑھ جاتی ہے، کیوں کہ جب ہر فرد ہی بات کر رہا ہے تو حقائق کے بجائے افسانے بھی پروان چڑھائے جانے لگتے ہیں۔ ایسے میں تو واقعی یہ بہت مضر اور خوف ناک چیز بن جاتا ہے۔
اس منظر نامے نے سوشل میڈیا کے ذریعے غلط اور خلاف حقیقت باتوں کو فروغ دینے میں ایک اہم اور مہلک کردار ادا کیا ہے۔ اس سے جہاں مختلف تحریری اور بصری مواد کے ذریعے لوگوں کی رائے کنٹرول کی جانے لگی، وہاں اسے جھوٹ اور پروپیگنڈے سے بڑھ کر جعلی خبروں کے پھیلاؤ تک کے لیے استعمال کیا جانے لگا ہے۔ پھر مصنوعی ذہانت (اے آئی) نے اس جھوٹ کو پکڑنا اور بھی مشکل کر دیا ہے۔ کسی بھی چیز کو دیکھ کر بطور ایک عام صارف کے آپ کا دماغ ساتھ نہں دیتا ہے کہ کوئی تصویر اصل ہے کہ نقل؟ اور کہیں پر کسی کی آواز مصنوعی ذہانت (اے آئی) سے تو نہیں بنوائی گئی؟ کسی ویڈیو میں کتنی تدوین یا تبدیلیاں کی گئی ہیں اور ایسے کی گئی ہے کہ آپ کا گمان بھی نہیں جاتا کہ واقعی یہ بھی غیر حقیقی ہو سکتی ہے۔ یہ نہایت خوف ناک بات ہے۔
انسان اپنی پسند و ناپسند میں ایک طرح سے متعصب بھی ہوتا ہے۔ جس کے نتیجے میں وہ جس چیز کو پسند کرتا ہے، اسے بلا سوچے سمجھے زیادہ جلدی درست سمجھ لیتا ہے اور اس پر ڈنکے کی چوٹ پر اصرار بھی کرنے لگتا ہے کہ یہ بات تو بالکل درست ہے۔ اس کے نتیجے میں اسے دیکھنے اور سننے والے بھی اسے ہزاروں کی تعداد میں آگے پھیلا دیتے ہیں۔ اس طرح اس کے سچ اور جھوٹ ہونے کی بات کہیں پیچھے رہ جاتی ہے۔
سوشل میڈیا صارفین کی اس فکر کے پیچھے عام اخبارات، ریڈیو اور ٹی وی سے لے کر خبری ویب سائٹ تک کی خبروں کے حوالے سے قارئین، سامعین اور ناظرین کے عدم اعتبار نے بھی بہت حصہ ڈالا ہے۔ سوشل میڈیا استعمال کرنے والے صارفین ان ذرائع کے مقابلے میں سوشل میڈیا کے ذریعے سامنے آنے والے مواد کو زیادہ سچا اور قابل اعتبار سمجھتے ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ عام اخبار اور چینل وغیرہ سچ نہیں بتاتے، جس کے نتیجے میں مختلف سیاسی، سماجی اور انتشاری گروہ اپنے مفادات حاصل کرتے ہیں۔
اس کے ذریعے انتخابی نتائج پر اثر انداز ہونا تو اب معمول کی بات ہو گئی ہے، لیکن اس کے ذریعے کسی کی کردار کشی، معاشرے میں ہاہاکار مچنا اور زندگی اتھل پتھل ہونا بھی اب عام ہونے لگا ہے۔ یہاں تک کہ ایسی جعلی خبریں اور پروپیگنڈے بہت سوں کی جان لینے کا سبب بننے لگے ہیں۔ لوگ کسی بھی سیاسی، سماجی اور مذہبی معاملات میں اشتعال میں آ کر کسی کی جان لینے لگے ہیں۔ ساتھ ہی ایسے جعلی مواد کا شکار افراد ڈپریشن میں جا کر اپنی جان لینے کی انتہا تک پہنچ رہے ہیں۔
یہ کافی انتباہی صورت حال ہے۔ خبریں اور آگاہی سب کا حق ہے، لیکن اس کا درست ہونا تو بنیادی ترین بات ہے۔ اس کے لیے لاہور میں طالبہ کے ساتھ مبینہ زیادتی کے واقعے اور اس کے نتیجے میں طلبا کے پر تشدد احتجاج کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ اس کے بعد قوانین کی فعالیت ایک مثبت عمل ہے، جس طرح اس جعلی خبر کو پھیلانے والوں کے خلاف کارروائی ہو رہی ہے، وہ اچھی بات ہے، لیکن جعلی خبروں کی روک تھام کے لیے صرف حکومتی کارروائی کافی نہیں ہے۔ ہمیں اس حوالے سے لوگوں کی بھی تربیت کرنی ہو گی کہ وہ کسی بھی ''خبر‘‘ کے سامنے آنے پر اس کا تنقیدی جائزہ لے سکیں اور اپنی پسند و ناپسند سے قطع نظر سب سے پہلے اس کے سچ ہونے کا انتظار کریں اور اس کی تصدیق کے لیے منطقی اور ضروری جان کاری مکمل کریں۔ یہ تربیت ہمارے اسکولوں سے لے کر کالجوں اور یونیورسٹیوں ہر تین جگہوں پر لازمی ہے۔
سوشل میڈیا استعمال کرنے کے حوالے سے تعلیم کو لازمی کرنا چاہیے، کیوں کہ ہر فرد اور بالخصوص نوجوان تو سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر بہت زیادہ متحرک ہیں۔ ان کی اگر تربیت ہو گی تو ہی ہم جعلی خبروں اور جھوٹے واقعات کے پھیلاؤ پر کوئی بند باندھ سکتے ہیں اور مستقبل میں کسی بھی المناک واقعے اور سانحے سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔