جنوبی کوریا کے بحری جہاز کی تباہی، اقوام متحدہ کی تنقید
10 جولائی 2010کونسل نے تاہم جنوبی کوریا کی طرف سے اُس کے جہاز کے ڈوبنے کے واقعے کی چھان بین میں شمالی کوریا کو ذمہ دار ٹھرائے جانے پرگہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔
سلامتی کونسل کی طرف سے اس امر کو بھی ملحوظ رکھا گیا کہ شمالی کوریا نے جنوبی کوریا کی طرف سے عائد کردہ الزامات کی بارہا تردید کی ہے۔ حال ہی میں پیونگ یانگ نے متنبہ کیا تھا کہ اگر بین الاقوامی براداری نے جنوبی کوریا کی طرف سے لگائے جانے والے الزامات کے تحت شمالی کوریا کے خلاف کوئی کارروائی کی تو اس کا انجام جنگ ہوگا۔
سلامتی کونسل کے تازہ ترین بیانات کو شمالی کوریا کے ساتھ اُس کے جوہری پروگرام سے متعلق 6 فریقی مذاکرات کی بحالی کی کوشش کے تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔ مبصرین کے مطابق اس کا مقصد پیونگ یانگ کے حلیف چین کی رضامندی کو بھی شامل کرنا ہے تاکہ فیصلہ اتفاق ِکُلی سے ہو۔ اقوام متحدہ میں شمالی کوریا کے سفیر Sin So Ho نے سلامتی کونسل کے بیانات کو اپنے ملک کی ایک بڑی سفارتی فتح قرار دیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’ پیونگ یانگ چاہتا ہے کہ جوہری اسلحے کی تخفیف کا سلسلہ جزیرہ نما کوریا میں ہی ہو اور 6 فریقی مذاکرات کے تحت آگے بڑھے‘۔ تاہم شمالی کوریا کے سفارت کار کے بیان سے یہ امر واضح نہیں ہوا کہ آیا پیونگ یانگ اُن مذاکرات کی طرف لوٹنا چاہتا ہے جنہیں اُس نے2007 ء میں بے جان اور مردہ قرار دیا تھا۔
سلامتی کونسل کا تازہ ترین بیان کسی حد تک اُس مسودے سے مختلف ہے، جس پر سلامتی کونسل کے 5 مستقل اراکین کا اتفاق ہوا تھا۔ اس مسودے کو امریکہ نے جمعرات کو کونسل کے تمام 15 ممبران کے سامنےایک بند کمرے میں پیش کیا تھا۔ اس مسودے میں امریکہ نے کہا تھا کہ سلامتی کونسل کے ارکان روس، چین، برطانیہ، فرانس اور جرمنی کے علاوہ جنوبی کوریا اور جاپان نے بھی مذمتی بیان سے اتفاق کیا ہے۔
یاد رہے کہ گزشتہ مارچ میں جنوبی کوریا کے جہاز کے ڈوبنے کے واقعے میں اُس کے 46 جہازراں ہلاک ہوگئے تھے۔ اُس واقعے کی چھان بین جنوبی کوریا کے سِول اور عسکری تفتیش کاروں کے علاوہ امریکہ، برطانیہ، آسٹریلیا اور سویڈن کے ماہرین کی ٹیم نے کی تھی، جس کے بعد جنوبی کوریا نے کہا تھا کہ شمالی کوریا کے ایک سب میرین نے تارپیڈو کے ذریعے حملہ کر کہ اُس کے بحری جہاز غرق کیا تھا۔
رپورٹ: کشور مصطفٰی
ادارت: عاطف بلوچ