1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جنہیں بہتر مستقبل کی تلاش موت تک لے گئی

18 جنوری 2025

مغربی افریقی پانیوں میں ڈوب جانے والے پچاس افراد میں سے چوالیس پاکستانی تھے اور ان تمام کا تعلق صوبہ پنجاب کے مختلف علاقوں سے بتایا جا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/4pK1D
Pakistan Boot mit rund 100 Menschen an Bord kentert in einem Fluss in Sadiqabad
تصویر: Punjab Government/REUTERS

مغربی افریقہ کے اٹلانٹک کے ساحلی علاقے سے اسپین پہنچنے کی کوشش کے دوران کشتی غرق ہونے کے نتیجے میں پچاس افراد ہلاک ہو گئے تھے، جن میں سے چوالیس پاکستانی تھے۔ بتایا گیا ہے کہ بہتر مستقبل کی تلاش میں یورپ کا رخ کرنے والے ان پاکستانیوں میں سے تقریباﹰ تمام کا تعلق صوبہ پنجاب سے تھا۔

دو جنوری کو تارکین وطن سے بھری یہ کشتی اسپین کے جزائر کیناری کی جانب روانہ ہوئی تھی، تاہم راستے میں یہ سمندری لہروں سے شکست کھاتے ہوئے ڈوب گئی تھی۔ اس واقعے پر پاکستانی صدر آصف زرداری اور وزیر اعظم شہباز شریف نے گہرے دکھ کا اظہار کیا ہے۔

مشرقی لیبیا میں ایک کشتی سے تارکین وطن کو نکالا جا رہا ہے
سینکڑوں افراد یورپ پہنچنے کے خواہش میں موت کے منہ میں چلے جاتے ہیںتصویر: Islam Alatrash

بتایا گیا ہے کہ یہ کشتی مغربی افریقی ملک موریطانیہ سے روانہ ہوئی تھی اور اس پر 80 تارکین وطن سوار تھے۔ یہ کشتی مراکش کے شہر داخلہ کے قریب غرق ہو گئی۔

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق متاثرہ افراد کے گھروں میں اس وقت سوگ کا عالم ہے اور بعض خاندانوں کو یہی معلوم نہیں کہ آیا ان کا بیٹا اس واقعے میں ہلاک ہو گیا ہے یا بچا لیے گئے تیس افراد میں شامل ہے۔

صوبہ پنجاب کے ضلع گجرات کے گاؤں ڈھولا میں احمد شہزاد نامی ایک شخص نے اے پی کو بتایا کہ ان کا بیٹا سفیان علی اس واقعے میں ہلاک ہو گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ انہیں ان کے بیٹے کی جانب سے ایک وائس میسج ملا تھا، جس میں سفیان علی نے کہا تھا کہ انہیں دیگر پچیس افراد کے ساتھ ایک ایسی کشتی میں جبراﹰ بٹھایا جا رہا ہے، جو پہلے ہی بھری ہوئی ہے۔ احمد شہزاد نے بتایا کہ ان کا بھتیجا بھی اس واقعے میں ہلاک ہو گیا۔ انہوں نے حکومت سے اپیل کی کہ ان کی بیٹے اور بھتیجے کی میتوں کو پاکستان واپس لانے میں مدد کی جائے۔

مشرقی لیبیا میں حراست میں لیے گئے تارکین وطن
لیبیا سے بھی سینکڑوں افراد یورپ پہنچنے کی کوشش کرتے ہیںتصویر: Islam Alatrash

گجرات ہی کے ایک اور گاؤں جُوڑہ میں محمد اکرم نے اس واقعے میں اپنا بیٹا کھو دینے کا بتایا۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کا بیٹا ابوبکر لاکھوں روپے انسانی اسمگلروں کو ادا کر کے بذریعہ جہاز مراکش پہنچا تھا اور اسے معلوم نہیں تھا کہ اسے یورپ کے سفر کے لیے کشتی میں بٹھایا جائے گا۔

ڈسکہ کے علاقے میں ایک خاندان نے بتایا کہ انہوں نے اپنی جائیداد بیچ کر ارسلان احمد اور محمد عرفان کو یورپ بھیجنے کے لیے پیسے انسانوں کے اسمگلروں کو ادا کیے تھے۔ ارسلان احمد کی والدہ کے مطابق انہوں نے سنا ہے کہان کا بیٹا بچا لیا گیا ہے، تاہم وہ اب تک اس سے رابطے میں ناکام ہیں۔ محمد عرفان کی والدہ کا ایسوسی ایٹڈ پریس کو کہنا تھا کہ حکومت ان کے بیٹے کا پتا لگائے اور اسے وطن واپس لائے۔

کشتی حادثہ، رشتہ داروں کو دردناک خبر کا انتظار

واضح رہے کہ سالانہ بنیادوں پر لاکھوں افراد یورپ کی جانب ہجرت کرتے ہیں، جن میں بڑی تعداد قانونی طریقوں سے یورپ پہنچنے والوں کی ہوتی ہے۔ تاہم بعض افراد غیر قانونی طریقوں سے انسانوں کے اسمگلروں کی مدد سے یورپ پہنچنے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ یورپی یونین کی سرحدی حفاظتی ایجنسی فرنٹیکس کے مطابق گزشتہ برس تقریباﹰ دو لاکھ چالیس ہزار افراد بغیر جائز سفری دستاویزات کے یورپ پہنچے۔

ع ت/ م م (اے پی)