جھل مگسی میں مزار پر خود کش حملہ، ہلاکتوں کی تعداد اب چوبیس
7 اکتوبر 2017بلوچستان کے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ سے ہفتہ سات اکتوبر کو ملنے والی نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹوں کے مطابق پولیس نے تصدیق کر دی ہے کہ اس مزار پر کیے گئے دہشت گردانہ حملے میں ہلاکتوں کی تعداد، جو کل جمعے کے روز تک 18 بنتی تھی، اب بڑھ کر چوبیس ہو گئی ہے۔
جھل مگسی ميں خونريز حملہ، داعش نے ذمہ داری قبول کر لی
کوئٹہ کے قریب بس اور وین میں تصادم، کم از کم تیرہ افراد ہلاک
نامعلوم افراد کا حملہ، ہزارہ کمیونٹی کے چار افراد ہلاک
ایسوسی ایٹڈ پریس نے لکھا ہے کہ اس خونریز دہشت گردانہ حملے میں ایک درجن سے زائد افراد تو موقع پر ہی ہلاک ہو گئے تھے، جس کے بعد کل جمعے کے روز بھی متعدد زخمی دم توڑ گئے تھے۔ اس کے بعد گزشتہ رات اور آج ہفتے کی صبح تک مزید چار زخمی اپنی زندگی کی بازی ہار گئے۔
سینیئر پولیس اہلکار محمد اقبال کے مطابق آج ہفتے کی صبح تک اس خود کش بم حملے میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد بڑھ کر 24 ہو چکی تھی اور 20 زخمیوں کا علاج جاری ہے، جن میں سے متعد دکی حالت نازک ہے۔
اس حملے میں ایک خود کش حملہ آور نے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ سے قریب 400 کلومیٹر مشرق کی طرف سے ضلع جھل مگسی کے ایک دور دراز گاؤں میں خود کو شیعہ مسلمانوں کے لیے زیادہ اہم ایک مزار پر دھماکے سے اڑا دیا تھا۔ یہ حملہ اس وقت کیا گیا تھا، جب اس مزار کا احاطہ زائرین سے بھرا ہوا تھا۔
شام اور عراق کے مختلف علاقوں میں سرگرم شدت پسند تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش نے، جو پاکستان اور افغانستان میں بھی اپنے قدم جمانے کی کوششوں میں ہے، اس خود کش حملے کی ذمے داری قبول کر لی تھی۔ یہی تنظیم ماضی میں بھی خاص طور پر بلوچستان کے مختلف علاقوں میں کیے گئے کئی ہلاکت خیز دہشت گردانہ حملوں کی ذمے داری قبول کر چکی ہے۔
پاکستانی صوبہ بلوچستان کو شدت پسند مسلم گروپوں کی طرف سے خونریز حملوں کے علاوہ مقامی طور پر بلوچ قوم پسندوں کی اس مسلح بغاوت کا بھی سامنا ہے، جو صوبے کے عوام کے لیے زیادہ خود مختاری اور صوبے میں موجود تیل اور گیس جیسے قدرتی وسائل سے ہونے والی آمدنی میں سے بلوچ آبادی کے لیے زیادہ بڑے حصے کا مطالبہ کرتے ہیں۔