1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

حقانی کے ساتھ سلوک پر تشویش ہے، امریکی سینیٹرز

6 جنوری 2012

امریکہ کے تین سینیٹرز نے واشنگٹن میں سابق پاکستانی سفیر حسین حقانی کے ساتھ ملک میں ہونے والے سلوک پر تشویش ظاہر کی ہے۔ انہوں نے میمو کیس کے تحقیقاتی کمیشن پر زور دیا ہے کہ اس معاملے میں شفافیت کو یقینی بنایا جائے۔

https://p.dw.com/p/13fLO
تصویر: AP

اکتوبر میں میمو کیس کے حوالے سے پیدا ہونے والے تنازعے کے بعد حسین حقانی نے اپنے عہدے سے استعفٰی دے دیا تھا اور وہ انکوائری کا سامنا کرنے کے لیے پاکستان پہنچ گئے تھے۔ اس معاملے کی تحقیقات پاکستان کا ایک عدالتی کمیشن کر رہا ہے۔ بغیر کسی کے دستخط والے اس میمو کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس میں مئی میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد پاکستانی فوج کے اقتدار پر قبضہ کرنے کو روکنے کے لیے امریکی حکام سے مدد طلب کی گئی تھی۔

ریپبلکن سینیٹرز جان مکین اور مارک کرک اور ایک آزاد سینیٹر جو لِبرمین نے ایک مشترکہ بیان میں تشویش کا اظہار کیا کہ حقانی کو انتقام لینے کے لیے قربانی کا بکرا بنایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے پاکستان پر زور دیا کہ اس معاملے کو جلد از جلد حل کیا جائے۔ بیان میں کہا گیا، ’’حسین حقانی کی پاکستان واپسی کے بعد ان پر سفری پابندیاں عائد کرنے کے علاوہ ان کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک پر بھی ہماری تشویش بڑھتی جا رہی ہے۔ حسین حقانی نے امریکہ میں سفیر کے طور پر انتہائی باعزت وقت گزارا تھا۔‘‘

Pakistan USA Botschafter Husain Haqqani
امریکی سینیٹرز نے حسین حقانی کے ساتھ پاکستان میں ہونے والے سلوک پر تشویش ظاہر کی ہےتصویر: AP

سینیٹرز نے مزید کہا، ’’واشنگٹن میں بہت سے دیگر افراد کی طرح ہم بھی حقانی کے معاملے پر گہری نگاہ رکھے ہوئے ہیں۔ ہم پاکستانی حکام پر زور دیتے ہیں کہ اس معاملے کو جلد از جلد اور سویلین قانون کی بالا دستی کے مطابق حل کریں۔‘‘

امریکی سینیٹرز کے مطابق اسلام آباد کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ حقانی سے تحقیقات کرنے والا عدالتی کمیشن اپنی تحقیقات کو محض ایک باعزت شخص کے خلاف انتقام لینے کے سیاسی ہتھکنڈے کے طور پر استعمال نہ کرے۔ انہوں نے کہا، ’’اگرچہ ہم حقانی کے ساتھ ہمیشہ ہی متفق نہیں ہوتے تھے اور بعض اوقات ہمارے درمیان تبادلہ خیال میں کچھ تلخیاں بھی پیدا ہو جاتی تھیں مگر ہمارے دلوں میں ہمیشہ ان کا انتہائی زیادہ احترام تھا اور ہمیں علم تھا کہ وہ جو کچھ کر رہے ہیں، اپنی قوم اور حکومت کے لیے انتہائی حب الوطنی اور جذبے کے ساتھ کر رہے ہیں۔‘‘

امریکی دفتر خارجہ کی ترجمان وکٹوریہ نولینڈ نے امریکی سینیٹرز کے بیان پر تو تبصرہ نہیں کیا مگر ان کا کہنا تھا، ’’ہماری خواہش ہے کہ عدالتی کارروائی ایک غیر جانب دار، شفاف انداز میں اور بین الاقوامی انصاف کے اعلٰی ترین پیمانوں سے ہم آہنگ ہو۔‘‘

پیر کو پاکستانی کمیشن نے حسین حقانی، امریکی قومی سلامتی کے سابق مشیر جنرل جیمز جونز اور پاکستان کی انٹیلی جنس ایجنسی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل احمد شجاع پاشا کو کمیشن کے ارکان کے سامنے پیش ہونے کے لیے طلب کیا تھا۔

Pakistan Terror Haus von Osama bin Laden in Abbottabad
میمو کے مطابق گزشتہ برس مئی میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد پاکستانی حکومت کو خدشہ تھا کہ فوج اقتدار پر قبضہ کرنا چاہتی ہےتصویر: dapd

پاکستان کی طاقتور فوج اور سویلین حکومت کے درمیان پہلے سے تناؤ نے اس وقت کشیدگی اختیار کر لی جبکہ اکتوبر میں ایک پاکستانی نژاد امریکی کاروباری شخصیت منصور اعجاز نے الزام لگایا کہ پاکستانی حکام نے مئی میں امریکہ کے جوائنٹ چیفس آف اسٹاف مائیک مولن کو لکھے گئے ایک مراسلے میں فوج کے خلاف ان سے مدد طلب کی تھی۔

منصور اعجاز کے دعوے کے مطابق صدر آصف علی زرداری کو خدشہ تھا کہ فوج ان کی حکومت کا تختہ الٹ سکتی ہے۔ اِس امریکی شہری نے حسین حقانی پر الزام لگایا کہ انہوں نے صدر کی آشیر باد سے یہ میمو تیار کیا تھا۔

حقانی نے رواں ہفتے برطانوی اخبار ڈیلی ٹیلی گراف کو دیے گئے ایک انٹرویو میں ان الزامات کو ’غلط‘ اور اپنے خلاف ’نفسیاتی جنگ‘ کا حصہ قرار دیا تھا۔ انہوں نے اپنے تحفظ سے متعلق خدشات ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کے خلاف شروع کی گئی مہم کی وجہ سے انہیں اپنی جان کا خوف ہے۔

رپورٹ: حماد کیانی

ادارت: امجد علی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں