حقانی کے ساتھ سلوک پر تشویش ہے، امریکی سینیٹرز
6 جنوری 2012اکتوبر میں میمو کیس کے حوالے سے پیدا ہونے والے تنازعے کے بعد حسین حقانی نے اپنے عہدے سے استعفٰی دے دیا تھا اور وہ انکوائری کا سامنا کرنے کے لیے پاکستان پہنچ گئے تھے۔ اس معاملے کی تحقیقات پاکستان کا ایک عدالتی کمیشن کر رہا ہے۔ بغیر کسی کے دستخط والے اس میمو کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس میں مئی میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد پاکستانی فوج کے اقتدار پر قبضہ کرنے کو روکنے کے لیے امریکی حکام سے مدد طلب کی گئی تھی۔
ریپبلکن سینیٹرز جان مکین اور مارک کرک اور ایک آزاد سینیٹر جو لِبرمین نے ایک مشترکہ بیان میں تشویش کا اظہار کیا کہ حقانی کو انتقام لینے کے لیے قربانی کا بکرا بنایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے پاکستان پر زور دیا کہ اس معاملے کو جلد از جلد حل کیا جائے۔ بیان میں کہا گیا، ’’حسین حقانی کی پاکستان واپسی کے بعد ان پر سفری پابندیاں عائد کرنے کے علاوہ ان کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک پر بھی ہماری تشویش بڑھتی جا رہی ہے۔ حسین حقانی نے امریکہ میں سفیر کے طور پر انتہائی باعزت وقت گزارا تھا۔‘‘
سینیٹرز نے مزید کہا، ’’واشنگٹن میں بہت سے دیگر افراد کی طرح ہم بھی حقانی کے معاملے پر گہری نگاہ رکھے ہوئے ہیں۔ ہم پاکستانی حکام پر زور دیتے ہیں کہ اس معاملے کو جلد از جلد اور سویلین قانون کی بالا دستی کے مطابق حل کریں۔‘‘
امریکی سینیٹرز کے مطابق اسلام آباد کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ حقانی سے تحقیقات کرنے والا عدالتی کمیشن اپنی تحقیقات کو محض ایک باعزت شخص کے خلاف انتقام لینے کے سیاسی ہتھکنڈے کے طور پر استعمال نہ کرے۔ انہوں نے کہا، ’’اگرچہ ہم حقانی کے ساتھ ہمیشہ ہی متفق نہیں ہوتے تھے اور بعض اوقات ہمارے درمیان تبادلہ خیال میں کچھ تلخیاں بھی پیدا ہو جاتی تھیں مگر ہمارے دلوں میں ہمیشہ ان کا انتہائی زیادہ احترام تھا اور ہمیں علم تھا کہ وہ جو کچھ کر رہے ہیں، اپنی قوم اور حکومت کے لیے انتہائی حب الوطنی اور جذبے کے ساتھ کر رہے ہیں۔‘‘
امریکی دفتر خارجہ کی ترجمان وکٹوریہ نولینڈ نے امریکی سینیٹرز کے بیان پر تو تبصرہ نہیں کیا مگر ان کا کہنا تھا، ’’ہماری خواہش ہے کہ عدالتی کارروائی ایک غیر جانب دار، شفاف انداز میں اور بین الاقوامی انصاف کے اعلٰی ترین پیمانوں سے ہم آہنگ ہو۔‘‘
پیر کو پاکستانی کمیشن نے حسین حقانی، امریکی قومی سلامتی کے سابق مشیر جنرل جیمز جونز اور پاکستان کی انٹیلی جنس ایجنسی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل احمد شجاع پاشا کو کمیشن کے ارکان کے سامنے پیش ہونے کے لیے طلب کیا تھا۔
پاکستان کی طاقتور فوج اور سویلین حکومت کے درمیان پہلے سے تناؤ نے اس وقت کشیدگی اختیار کر لی جبکہ اکتوبر میں ایک پاکستانی نژاد امریکی کاروباری شخصیت منصور اعجاز نے الزام لگایا کہ پاکستانی حکام نے مئی میں امریکہ کے جوائنٹ چیفس آف اسٹاف مائیک مولن کو لکھے گئے ایک مراسلے میں فوج کے خلاف ان سے مدد طلب کی تھی۔
منصور اعجاز کے دعوے کے مطابق صدر آصف علی زرداری کو خدشہ تھا کہ فوج ان کی حکومت کا تختہ الٹ سکتی ہے۔ اِس امریکی شہری نے حسین حقانی پر الزام لگایا کہ انہوں نے صدر کی آشیر باد سے یہ میمو تیار کیا تھا۔
حقانی نے رواں ہفتے برطانوی اخبار ڈیلی ٹیلی گراف کو دیے گئے ایک انٹرویو میں ان الزامات کو ’غلط‘ اور اپنے خلاف ’نفسیاتی جنگ‘ کا حصہ قرار دیا تھا۔ انہوں نے اپنے تحفظ سے متعلق خدشات ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کے خلاف شروع کی گئی مہم کی وجہ سے انہیں اپنی جان کا خوف ہے۔
رپورٹ: حماد کیانی
ادارت: امجد علی