1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

حلب پر حکومتی بم باری میں ’ستائیس شہری ہلاک‘

شامل شمس
19 نومبر 2016

برطانیہ میں قائم سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے مطابق حکومتی فضائی حملوں کے نتیجے میں حلب میں کم از کم ستائیس عام شہری ہلاک ہو گئے ہیں۔ حلب کے جس علاقے میں یہ بم باری کی گئی وہاں باغیوں کا قبضہ ہے۔

https://p.dw.com/p/2Swzp
Syrien Aleppo  nach Luftangriffen in Bab al-Nayrab
تصویر: Getty Images/AFP/A. Alhalbi

حلب میں بعض علاقوں پر حکومتی فورسز کا قبضہ ہے جب کہ بعض پر باغیوں کا۔ شامی صدر بشار الاسد کی فورسز روسی مدد کے ساتھ حلب میں باغیوں کے خلاف کارروائی کر رہی ہیں۔ حلب شدید تباہی اور انسانی بحران کا شکار ہے۔

واضح رہے کہ شام میں حکومت مخالف باغیوں کے خلاف شامی فوجی کارروائی کو روسی پشت پناہی حاصل ہے۔ گزشتہ ماہ چار ہفتوں تک جاری شامی اور روسی بم باری کے نتیجے میں کم از کو دو ہزار شہری زخمی ہوئے تھے۔ بم باری کے نتیجے میں ان علاقوں میں موجود ہسپتال بھی تباہ ہو چکے ہیں، اور طبی عملے اور ادویات کی شدید قلت ہے۔

حلب اس جنگ کے باعث تقریباً تباہ ہو چکا ہے، اور باغیوں کے زیر قبضہ علاقوں میں کم از کم دو لاکھ پچاس ہزار شہری محصور ہیں، تاہم اقوام متحدہ کے ذرائع کے مطابق اب تک کسی مربوط اور منظم طریقے سے ان شہریوں کو حلب سے منتقل کیے جانے کا آغاز نہیں ہوا ہے۔

گزشتہ ماہ اقوام متحدہ کے ترجمان جینس لیرکے نے بتایا تھا کہ حلب میں سلامتی کی صورت حال مخدوش ہے اور اسی باعث یہاں سے زخمیوں کو نکالے جانے کا عمل تعطل کا شکار ہے۔

روسی اور شامی حکومتوں پر تنقید

حلب پر روس اور شامی فورسز کی بم باری کے سبب روس کو عالمی سطح پر شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، تاہم روس اور شام کی حکومتوں کی جانب سے ایسا کوئی عندیہ نہیں گیا کہ وہ حلب میں فوجی کارروائی مستقل بنیاد پر بند کر سکتے ہیں۔

حلب شام کا سب سے بڑا شہر اور خانہ جنگی کے آغاز سے قبل مشرق وسطیٰ کے اس ملک کا اقتصادی مرکز تھا۔ حلب میں شامی صدر اسد کے خلاف بغاوت سب سے آخر میں شروع ہوئی تھی۔ عمومی طور پر یہ شہر اسد حکومت کا حامی تھا۔ اس شہر پر قبضے کا مطلب شامی جنگ میں کسی بھی فریق کے لیے فیصلہ کن جیت ہو گی۔ تاہم اس شہر کی اہمیت اس وجہ سے بھی ہے کہ اس سے صرف پچاس کلومیٹر کے فاصلے پر ترکی کی سرحد ہے۔ اس وقت حلب شام اور ترکی کے درمیان ’پراکسی جنگ‘ کا بھی مرکز بن چکا ہے۔

حلب سمیت شام بھر میں جاری لڑائی میں اب اتنے زیادہ فریق شامل ہو چکے ہیں کہ یہ تعین کرنا دن بہ دن مشکل ہوتا جا رہا ہے کہ کون کس کے خلاف لڑ رہا ہے۔ اسد حکومت اور باغیوں کے درمیان جھڑپوں سے شدت پسند اسلامی تنظیمیں داعش اور القاعدہ بھی فائدہ اٹھا رہی ہیں۔ تاہم تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سبھی کے لیے حلب کی حیثیت کلیدی ہے۔ اسی کلیدی حیثیت کی حلب کو جان لیوا قیمت بھی چکانا پڑ رہی ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید