حکیم اللہ محسود کی رشتہ داروں سے پوچھ گچھ
20 جون 2016خبر رساں ادارے روئٹرز نے پاکستانی حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ ہتھیار پھینکنے والے ان جنگجوؤں میں حکیم اللہ محسود کا بھائی اور ایک انکل بھی شامل ہے۔ بتایا گیا ہے کہ بیس جون بروز اتوار ان جنگجوؤں سے تفتیشی عمل شروع کر دیا گیا ہے۔
ناقدین کا خیال ہے کہ وزیرستان میں محسود قبیلے سے تعلق رکھنے والے ان جنگجوؤں کی طرف سے خود کو فوج کے حوالے کرنے سے پاکستان میں طالبان کی تحریک کی کمزوری مزید واضح ہو جائے گی۔ یہ شدت پسند گروہ سن 2007 سے پاکستان میں اسلامی قانون کے نفاذ کی خاطر سرگرم ہیں۔
سن 2013 میں حکیم اللہ محسود امریکی ڈورن حملہ میں مارا گیا تھا، تب سے پاکستانی طالبان کی سربراہی ملا فضل اللہ کے ہاتھ میں ہے۔
روئٹرز کے مطابق حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد اس کے بھائی اعجاز اور انکل خیر محمد نے خان سید کی سربراہی میں قائم ہونے والے ایک دھڑے کی حمایت کا اظہار کیا تھا۔ خان سید بھی نومبر میں ایک ڈرون حملے میں مارا گیا تھا۔
پاکستانی حکام کے مطابق ان دونوں کے علاوہ دیگر چار جنگجوؤں نے تشدد ترک کرنے کے عہد ظاہر کیا ہے۔ کرم ایجنسی میں ایک سنیئر سکیورٹی اہلکار نے بتایا، ’’ جنوبی وزیرستان میں فعال محسود قبیلے سے تعلق رکھنے والے ان چھ جنگجو کمانڈروں نے ہفتے کی شب خود کو فوج کے حوالے کیا تھا۔‘‘
روئٹرز کے مطابق ان میں سے دو کمانڈروں کو گیریژن ٹاؤن ڈیرہ اسماعیل خان منتقل کر کے پوچھ گچھ کی گئی۔ پشاور میں ایک فوجی اہلکار نے اپنا نام خفیہ رکھنے کی شرط پر روئٹرز کو تصدیق کی کہ یہ دونوں جنگجو حکیم اللہ محسود کے رشتہ دار ہیں۔
کرم ایجنسی کے ایک مقامی اہلکار نے بھی اپنا نام نہ بتانے کی شرط پر ان گرفتاریوں کی تصدیق کی ہے۔ کرم ایجنسی کے ایک رہائشی نذر حسین کا کہنا ہے کہ جنوبی و شمالی وزیرستان میں عسکری کارروائی کے نتیجے میں سینکڑوں جنگجو خیبر ایجنسی میں روپوش ہیں۔