خلافت کوئی مشترکہ مقصد نہیں
1 جولائی 2014القاعدہ سے قریبی تعلق رکھنے والی سُنی انتہا پسند تنظیم 'اسلامی ریاست برائے عراق و شام‘ آئی ایس آئی ایس نے عراق میں نظام خلافت قائم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ آئی ایس آئی ایس کا ساتھ دینے والے بہت سے اتحادیوں کے لیے یہ ایک لمحہ فکریہ ہے کیونکہ اُن کے مقاصد کچھ اور ہیں۔ آئی ایس آئی ایس کے ساتھ آئندہ ان اتحادیوں کے اشتراک عمل کو اُس کے اس حالیہ اقدام سے نقصان پہنچا ہے۔
سُنی انتہا پسند تنظیم 'اسلامی ریاست برائے عراق و شام‘ آئی ایس آئی ایس کے عراق میں خلافت کے قیام کے اعلان کے بعد اس اقدام کے اثرات نمایاں ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ سب سے پہلا نشانہ خواتین بنی ہیں جن پر مکمل پردے کی پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ ریستورانوں کے مالکان کو اپنے مہمان یا گاہکوں کو نہ تو شراب پیش کرنے اور نہ ہی سگریٹ فروخت کرنے کی اجازت ہے۔ ریستورانوں میں موسیقی اور فٹ بال ورلڈ کپ کے میچوں کو دکھانا بھی سخت منع ہے۔ اس پابندی کی خلاف ورزی انہیں سخت جسمانی سزا کی صورت میں جھیلنا ہوگی۔ اب عراقی باشندوں کو اپنی روزمرہ زندگی کو شرعی قوانین کے تحت ڈھالنا ہوگا۔
’اسلامی ریاست برائے عراق و شام‘ کے ترجمان ابو محمد العدنانی کے بقول، ’’شمالی شام کے علاقے حلب سے لے کر عراق کے مشرق میں دجلہ تک خلافت کا نظام رائج ہوگا۔‘‘ اس انتہا پسند تنظیم کی حکومت کو ’اسلامی ریاست‘ کے نام سے پکارا جائے گا اور اس کے نئے خلیفہ ابو بکر البغدادی ہوں گے۔ العدنانی کا کہنا ہے کہ خلافت کا یہ نظام ہر مسلمان کا خواب اور ہر جہادی کی تمنا تھی۔
جرمن شہر ہیمبرگ میں قائم ’گیگا انسٹیٹوٹ‘ سے منسلک ماہر سیاسیات اشٹیفان روزینی کہتے ہیں،’’میرا خیال ہے کہ یہ تحریک کٹر مذہبی تحریک ہے۔ اس کے سرکردہ عناصر زندگی کے پیچیدہ معاملات کو نہایت سہل بنا کر ایک جملے میں کہہ دیتے ہیں کہ اسلام ہر مسئلے کا حل ہے۔ ایک بار شریعت نافذ ہو گئی تو سارے مسائل حل ہو جائیں گے۔ یہ بیان بہت سے انسانوں کو مسحور کرتا ہے۔‘‘
عراقی میں نوری المالکی کی حکومت کا خاتمہ اور عراق کی سرحدوں سے باہر تک ایک وسیع خطے میں خلافت کا اعلان سُنی انتہا پسند تنظیم اسلامی ریاست برائے عراق و شام‘ کے تمام اتحادیوں کے لیے خوش آئند نہیں ہے۔ جرمن ماہر سیاسیات روزینی اس بارے میں کہتے ہیں،’’آئی ایس آئی ایس اپنی خلافت کو وسیع تر خطے میں پھیلانے میں کامیاب نہیں ہوسکتی کیونکہ جن جن علاقوں پر ان کا قبضہ ہے وہاں کے سُنی مسلمانوں کا اسلام کے بارے میں تصور بہت مختلف ہے۔‘‘
اشٹیفن روزینی کا کہنا ہے کہ بہت سے دیگر سُنی مسلمانوں کی سوچ انتہا پسند تنظیم آئی ایس آئی ایس کے جہادیوں سے متصادم ہے۔ آئی ایس آئی ایس سلفی جہادیوں پر مشتمل ہے اور یہ دیگر سُنی مسلمانوں کے عقیدے کو بھی صحیح نہیں سمجھتے ہیں۔
مبصرین کے مطابق عراق میں فعال اس انتہا پسند تنظیم نے نظام خلافت کے قیام کا اعلان کر کے جہاں القاعدہ کی مرکزی قیادت کو کھلا چیلنج کیا ہے، وہاں انتہائی قدامت پسند خلیجی عرب ریاستوں کے لیے بھی سکیورٹی رسک بن گئی ہے۔