خلیجی ریاستوں میں مغربی فوجی اڈے اور ایرانی جاسوسی کا نیٹ ورک
13 جون 2010کویتی ذرائع ابلاغ کے مطابق ماہِ مئی میں وزارت داخلہ کے حکام نے کئی افراد کو پابند کیا ہے اور ان پر شبہ ہے کہ وہ ایران کے لئے جاسوسی میں ملوث ہو سکتے ہیں۔ حراست میں لئے گئے افراد میں کویتی شہریوں کے علاوہ کئی غیر ملکی باشندے بھی شامل ہیں۔ ان افراد کی گرفتاری کی اطلاع کویت کے عربی روزنامے ’القبس‘ میں سب سے پہلے شائع ہوئی تھی۔ حکام کے خیال میں گرفتاریاں اس لئے ضروری تھیں کہ ملوث افراد کویت میں واقع مختلف فوجی ٹھکانوں اور مقامات کے بارے میں اہم حساس نوعیت کی معلومات اکٹھی کرنے میں مصروف تھے۔
کویتی میڈیا کو ان افراد کے خلاف جاری عدالتی کارروائی سے دور رہنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ اس مقدمے کے بارے میں کسی قسم کی خبر یا معلومات شائع کرنے پر بھی پابندی عائد کی جا چکی ہے۔ اس مناسبت سے تہران حکومت نے کسی بھی قسم کے جاسوسی نیٹ ورک کو متحرک کرنے کی کارروائیوں کی تردید کر دی ہے۔
کویت میں پکڑے جانے والے مشتبہ ایرانی جاسوسی نیٹ ورک کے بارے میں ایک سفارتکار کا خیال ہے کہ یہ کل آٹھ افراد پر مشتمل ہے۔ یہ لوگ کویت، لبنان اور بحرین کے شہری ہیں۔ خلیج کی ریاست بحرین بھی اکثریتی شیعہ آبادی والی ریاست ہے لیکن حکمرانی کی باگ ڈور اقلیتی سنی آبادی کے ہاتھ میں ہے۔ سن 1980ء کی دہائی میں کویت میں انتشار پھیلانے کے شک میں کویتی حکام نے 27 ہزار تارکین وطن کو بے دخل کر دیا تھا۔ ان کی اکثریت کا تعلق ایران سے تھا۔ اس ناکام پلان میں کویت کے حکمران کا قتل، شیعہ قیدیوں کی رہائی اور امکانی طور پر نظام حکومت کو کنٹرول کرنا خیال کیا گیا تھا۔
یہ امر اہم ہے کہ خلیجی ریاستوں میں کویت واحد ریاست ہے، جس کے تہران حکومت کے ساتھ بہتر تعلقات ہیں وگرنہ سعودی عرب سمیت دیگر ریاستیں ایرانی جوہری پالیسیوں کے بارے میں تحفظات رکھتی ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ ان گرفتاریوں سے کویت ایران تعلقات کو ٹھیس پہنچ سکتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ گمان بھی کیا جا رہا ہے کہ دیگر ریاستوں میں بھی حکام چوکنا ہو چکے ہوں گے کہ ان کے ہاں بھی ایسا کوئی جاسوسی کا نظام تو متحرک نہیں ہے۔
دوسری جانب سعودی عرب نے برطانوی اخبار ’دی ٹائمز‘ میں شائع ہونے والی اس رپورٹ کو بے بنیاد اور فضول قرار دیا ہے، جس میں کہا گیا تھا کہ سعودی عرب نے ایران پر ممکنہ حملے کے دوران اسرائیل کو اپنی فضائی حدود کے استعمال کی اجازت دے دی ہے۔ ’دی ٹائمز‘ کی رپورٹ میں یہ بھی بیان کیا گیا تھا کہ اس مناسبت سے سعودی عرب نے باقاعدہ آزمائشی عمل کا آغاز بھی کر دیا ہے۔ اسی مناسبت سے مبصرین کا اندازہ ہے کہ اگر اسرائیل مستقبل میں ایرانی جوہری تنصیبات کو نشانہ بناتا ہے تو بشمول سعودی عرب تمام دیگر ریاستیں خاموشی اختیار کر سکتی ہیں۔ ایک تجزیہ نگار گالا ریانی کا خیال ہے کہ غیر سرکاری سطح پر کچھ حلقے تو اس حملے کو خوش آمدید بھی کہہ سکتے ہیں۔
رپورٹ: عابد حسین
ادارت: امجد علی