خواتین کی توہین نفرت انگیزی اور قابل سزا جرم ہے، جرمن عدالت
16 جون 2020کولون کی اعلیٰ علاقائی عدالت کے ججوں نے کہا ہے کہ ملک میں نفرت انگیزی سے متعلق قوانین خواتین کو بھی نفرت سے بچاتے ہیں، کیوں کہ ان کا بنیادی مقصد انسانی تکریم کا تحفظ ہے۔ اس سے قبل بون شہر کی ایک ماتحت عدالت نے خواتین کو 'دوسری درجے کی انسان‘ کہنے پر نفرت انگیزی کے قانون کے تحت چلائے جانے والے مقدمے میں ایک شہر کو بری کر دیا تھا۔ اعلیٰ علاقائی عدالت کی جانب سے اس تازہ رولنگ کے بعد یہ مقدمہ ایک مرتبہ پھر بون شہر کی عدالت کے سپرد کر دیا گیا ہے، تاہم اب اس مقدمے پر سنوائی دوسرے چیمبرز کریں گے۔
’کورونا وائرس بھی بیوی جیسا ہے، برداشت کریں‘: انڈونیشی وزیر
کووڈ انیس: فلپائنی خواتین ناقص نظام صحت کی قیمت ادا کر رہی ہیں
استغاثہ نے اس سلسلے میں عدالتی رولنگ مانگی تھی۔ عدالت نے یہ رولنگ گزشتہ ہفتے دی تھی، تاہم اسے پیر کے روز شائع کیا گیا۔ اس طرح اب اس شخص پر نفرت انگیزی کے قوانین کے تحت دوبارہ مقدمہ چلایا جائے گا، جس نے ایک ویب سائٹ پر خواتین کے لیے 'دوسرے درجے کے افراد‘، 'لگ بھگ جانور‘ اور 'کم تر انسان‘ جیسے الفاظ استعمال کیے تھے۔
اس شخص پر ابتدا میں جرمانہ عائد کیا تھا تھا تاہم بون شہر کی ایک اپیلوں سے متعلق عدالت نے اس شخص کو بری کر دیا تھا۔ عدالت نے تعزیراتِ جرمنی کے نفرت انگیزی سے متعلق قانون کی تشریح کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ قانون اقلیتوں کا تحفظ کرتا ہے، مگر خواتین کا نہیں۔
اس عدالتی فیصلے کے بعد کولون کی اعلیٰ علاقائی عدالت سے رجوع کیاگیا تھا تاکہ تعزیراتِ جرمنی کے نفرت انگیزی سے متعلق قانون سے متعلق اعلیٰ عدالت کی رائے جانی جائے کہ آیا یہ قانون واقعی خواتین کا تحفظ نہیں کرتا۔
اعلیٰ علاقائی عدالت نے اپنی رولنگ میں کہا کہ خواتین کے حوالے سے توہین آمیز رویہ انسانی تکریم کے بنیادی اصول کے خلاف ہے اور ایک قابل تعزیر جرم ہے۔ اس قانون کے تحت کسی شخص کو تین ماہ تا پانچ برس قید کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔
بون شہر کی انتظامی عدالت نے ایک ویب سائٹ پر خواتین سے متعلق نازیبا جملوں پر متعلقہ شخص پر جرمانہ عائد کیا تھا، تاہم اس شہر کی اپیلوں کی سماعت کرنے والی عدالت نے ملزم کو بری کر دیا تھا۔ اسی تناظر میں اسثغاثہ نے ملزم پر دوبارہ مقدمہ چلانے کے لیے اعلیٰ علاقائی عدالت سے رجوع کیا تھا۔
ع ت، ش ح (اے ایف پی، ڈی پی اے)